Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 142
وَ وٰعَدْنَا مُوْسٰى ثَلٰثِیْنَ لَیْلَةً وَّ اَتْمَمْنٰهَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِیْقَاتُ رَبِّهٖۤ اَرْبَعِیْنَ لَیْلَةً١ۚ وَ قَالَ مُوْسٰى لِاَخِیْهِ هٰرُوْنَ اخْلُفْنِیْ فِیْ قَوْمِیْ وَ اَصْلِحْ وَ لَا تَتَّبِعْ سَبِیْلَ الْمُفْسِدِیْنَ
وَوٰعَدْنَا
: اور ہم نے وعدہ کیا
مُوْسٰي
: موسیٰ
ثَلٰثِيْنَ
: تیس
لَيْلَةً
: رات
وَّاَتْمَمْنٰهَا
: اور اس کو ہم نے پورا کیا
بِعَشْرٍ
: دس سے
فَتَمَّ
: تو پوری ہوئی
مِيْقَاتُ
: مدت
رَبِّهٖٓ
: اس کا رب
اَرْبَعِيْنَ
: چالیس
لَيْلَةً
: رات
وَقَالَ
: اور کہا
مُوْسٰي
: موسیٰ
لِاَخِيْهِ
: اپنے بھائی سے
هٰرُوْنَ
: ہارون
اخْلُفْنِيْ
: میرا خلیفہ (نائب) رہ
فِيْ قَوْمِيْ
: میری قوم میں
وَاَصْلِحْ
: اور اصلاح کرنا
وَلَا تَتَّبِعْ
: اور نہ پیروی کرنا
سَبِيْلَ
: راستہ
الْمُفْسِدِيْنَ
: مفسد (جمع)
اور ہم نے موسیٰ سے تیس راتوں کا وعدہ کیا اور اس کو پورا کیا دس مزید راتوں سے تو اس کے رب کی مدت چالیس راتوں میں پوری ہوئی اور موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا میری قوم میں میری جانشینی کرنا ‘ اصلاح کرتے رہنا اور مفسدوں کی روش کی پیروی نہ کرنا۔
وَوٰعَدْنَا مُوْسٰی ثَلٰثِیْنَ لَیْلَۃً وَّ اَتْمَمْنٰہَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِیْقَاتُ رَبِّہٖٓ اَرْبَعِیْنَ لَیْلَۃً ج وَ قَالَ مُوسٰی لِاَخِیْہِ ھٰرُوْنَ اخْلُفْنِیْ فِیْ قَوْمِیْ وَاَصْلِحْ وَلَا تَتَّبِعْ سَبِیْلَ الْمُفْسِدِیْنَ ۔ (الاعراف : 142) ” اور ہم نے موسیٰ سے تیس راتوں کا وعدہ کیا اور اس کو پورا کیا دس مزید راتوں سے تو اس کے رب کی مدت چالیس راتوں میں پوری ہوئی اور موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا میری قوم میں میری جانشینی کرنا ‘ اصلاح کرتے رہنا اور مفسدوں کی روش کی پیروی نہ کرنا “۔ واعدنا کا مفہوم اس آیت کریمہ کا پہلا لفظ { وَاعَدْنَا } وعدہ سے مشتق ہے اور وعدہ کی حقیقت یہ ہے کہ کسی کو نفع پہنچانے سے پہلے اس کا اظہار کردینا کہ ہم تمہارے لیے فلاں کام کریں گے اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) پر اپنا کلام نازل کرنے کا وعدہ فرمایا اور اس کے لیے شرط لگائی کہ تیس راتیں کوہ طور پر اعتکاف اور ذکر اللہ میں گزارو اور پھر ان تیس پر اور دس راتوں کا اضافہ کر کے چالیس کردیا۔ لفظ { وَاعَدْنَا } کے اصلی معنی دو طرف سے وعدے اور معاہدے کے آتے ہیں۔ یہاں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطائِ تورات کا وعدہ تھا اور موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف سے تیس چالیس راتوں کے اعتکاف کا اسی لیے بجائے وعدنا کے واعدنا فرمایا۔ مدتِ موعود پر اضافے کا سبب ؟ اس آیت کریمہ میں یہ بات تو واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو تورات عطا کرنے کے لیے بلایا تھا اور اس کے لیے پہلے تیس راتوں کے اعتکاف کا حکم دیا اور پھر دس راتوں کا اضافہ فرما دیا۔ سوال یہ ہے کہ یہ دس راتوں کا اضافہ کیوں فرمایا گیا ؟ اہل علم کی جانب سے اس سلسلے میں مختلف باتیں کہی گئی ہیں۔ 1 ایک روایت بیان کی جاتی ہے کہ ” ویلمی نے حضرت ابن عباس ( رض) سے ایک روایت نقل کی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ایک ماہ کا اعتکاف ختم ہوگیا تو انھوں نے خدائے تعالیٰ سے ہم کلامی کی تیاری شروع کی چونکہ مسلسل ایک ماہ روزہ ہی میں بسر کیے تھے اس لیے منہ میں بو محسوس کرتے تھے لہٰذا انھوں نے یہ پسند نہیں کیا کہ رب العالمین سے اس حالت میں ہم کلام ہوں اور انھوں نے ایک خوشبودار بوٹی کو چبا لیا اور کھالیا ‘ فوراً ہی وحی الٰہی نے ٹوکا ‘ موسیٰ ! تم نے ہم کلامی سے پہلے روزہ کیوں افطار کرلیا ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کی وجہ بیان کردی تب حکم ہوا کہ موسیٰ اس مدت کو دس دن بڑھا کر چالیس دن کرو ‘ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ہمارے یہاں ایک روزہ دار کے منہ کی بو بھی مشک کی خوشبو سے زیادہ محبوب ہے اور اس طرح یہ چلہ پورا ہوا “۔ اسی طرح بعض اور روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے آخری روز منہ کی بو ختم کرنے کے لیے مسواک فرما لی تھی جس وجہ سے دس دن کا مزید اضافہ کردیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کی روایات اسماء الرجال کی محققین کی نگاہ میں قابل اعتماد نہیں ہیں۔ اس لیے ان روایات سے استشہاد کرنا صحیح معلوم نہیں ہوتا اور اس بنیاد پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کسی بوٹی کھانے یا مسواک کرنے سے منہ کی جو بو دور ہوگئی تھی وہ چونکہ اللہ تعالیٰ کو بہت پسند تھی اس لیے مزید دس دن کے اعتکاف اور روزے کا حکم دیا گیا تھا۔ بعض اہل علم نے سورة طٰہٰ کی آیت نمبر 84 سے استشہاد کرتے ہوئے اس کی ایک اور وجہ سمجھی ہے وہ یہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی قوم کو ساتھ لے کر وادیٔ ایمن کے دائیں طرف پہنچنے کا حکم دیا گیا تھا پھر قوم کو وہاں چھوڑ کر موسیٰ (علیہ السلام) کو وہاں پہنچنا تھا جہاں کوہ طور پر آپ کو نبوت عطا کی گئی تھی لیکن ابھی قافلہ راستے ہی میں تھا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے حضور حاضری کے حد سے بڑھے ہوئے شوق سے بےتاب ہو کر اکیلے ہی آگے بڑھ گئے اور قوم کی دیکھ بھال کی ذمہ داری حضرت ہارون کے سپرد کر گئے چناچہ سورة طٰہٰ میں یہ بتایا گیا ہے کہ اس عجلت پر پروردگار نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے جواب طلبی کی کہ ” تم اپنی قوم کو پیچھے چھوڑ کر اکیلے کیوں چلے آئے “ تو موسیٰ (علیہ السلام) نے قرآن کریم کے بیان کے مطابق جواب دیا کہ ” اے میرے رب میری قوم کے لوگ بھی بس میرے پیچھے ہی ہیں اور میں وقت موعود سے ذرا پہلے تیری خوشنودی کے لیے چلا آیا “۔ چناچہ یہ عجلت جو سراسر اللہ سے محبت کے جوش میں وجود میں آئی تھی چونکہ ایک بڑے حادثے کا سبب بنی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس عجلت و سبقت پر گرفت فرمائی اور اس کی حکمت تربیت مقتضی ہوئی کہ تیس دن کی مقررہ مدت بڑھا کر چالیس دن کردی جائے اگرچہ آپ کی یہ عجلت جیسا کہ عرض کیا گیا محض فرطِ شوق کا نتیجہ اور خدا کی رضا طلبی کے لیے تھی اس پہلو سے یہ کوئی برائی نہیں بلکہ محبت الٰہی کا تقاضہ تھی لیکن یہی عجلت ان کے لیے ایک شدید آزمائش اور اس قوم کے لیے ایک سخت فتنہ بن گئی۔ ان کی قوم کے اندر جو اشرار و مفسدین تھے انھوں نے اس غیبت سے فائدہ اٹھا کر قوم کو گوسالہ پرستی میں مبتلا کردیا اور حضرت ہارون اپنی انتہائی کوشش کے باوجود صورتحال پر قابو پانے میں ناکام رہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنی خداداد ذہانت اور نور نبوت سے اچھی طرح اس بات کو سمجھتے تھے کہ ان کی قوم کا مزاج سخت منفعل واقع ہوا ہے اور مزید یہ کہ ان کی قوم میں منافقین اور مفسدین کا ایک گروہ موجود ہے جو ان کی غیر حاضری میں کوئی فتنہ اٹھا سکتا ہے اور یہ گروہ آپ کے جلال اور شخصیت کی ہیبت سے تو دبا رہتا تھا لیکن حضرت ہارون (علیہ السلام) کی نگرانی میں اس بات کا امکان بہرحال موجود تھا کہ وہ ان کی طبعی نرمی سے فائد اٹھا کر شاید کوئی گل کھلانے میں کامیاب ہوجائیں اس لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ضرور احساس ہوگا کہ میری چند روزہ غیر حاضری اس غیر تربیت یافتہ قوم کے لیے کسی حادثے کا سبب نہ بن جائے لیکن غلبہ شوق میں وہ ان پہلوئوں کو نظرانداز فرما گئے اور اس کا نتیجہ نہایت خطرناک شکل میں سامنے آیا۔ انبیاء کے معصوم ہونے کا مفہوم یہاں یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ بظاہر یہ تدبیر کی غلطی معلوم ہوتی ہے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تو اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ پیغمبر ہیں ان سے اس غلطی کا صدور کیسے ہوا ؟ بات یہ ہے کہ پیغمبر گناہوں کے ارتکاب سے تو بالکل معصوم اور پاک ہوتے ہیں لیکن اگر کبھی ان سے کوئی لغزش صادر ہوتی ہے تو وہ اتباع ہَویٰ کی نوعیت کی نہیں ہوتی بلکہ کبھی کبھی وہ حق اور خدا کی رضا طلبی کی راہ میں حد مطلوب سے متجاوز ہوجاتے ہیں یہ چیز فی نفسہٖ کوئی برائی نہیں لیکن حضرات انبیاء (علیہ السلام) چونکہ میزان حق ہوتے ہیں اور ان کا ہر قول و فعل دوسروں کے لیے نمونہ ہوتا ہے اس وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کی اس طرح کی باتوں پر بھی گرفت فرماتا ہے چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بھی اس عجلت پر گرفت ہوئی اور جس کی وجہ سے تیس راتوں کی بجائے دس راتوں کا اضافہ کردیا گیا۔ حاصل کلام یہ کہ الفاظ میں گنجائش یقینا اس احتمال کی ہے جس کا ذکر کیا گیا ہے لیکن یہ بات بھی کہی جاسکتی ہے جس طرح اس سے پہلے پس منظر بیان کرتے ہوئے میں نے عرض کیا ہے کہ جب بھی اللہ تعالیٰ اپنے کسی برگزید پیغمبر کو کتاب ہدایت عطا فرماتے ہیں تو کتاب کے نزول سے پہلے کلام خداوندی کا تحمل پیدا کرنے اور کلام خداوندی سے طبعی موافقت پیدا کرنے کے لیے اس طرح کے تربیتی مراحل سے گزارا جاتا ہے۔ چناچہ یہ بھی ایسا ہی تربیتی مرحلہ تھا جس کی مدت پہلے تیس دن رکھی گئی تھی پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت تربیت سے اس میں دس دن کا اضافہ فرما دیا جس کی حقیقت کو پروردگار کے سوا کوئی نہیں جان سکتا لیکن یہ بات تو واضح ہے کہ اس کا تعلق بہرحال تربیت سے تھا اور کسی چیز سے نہیں۔ اس آیت کریمہ کے آخری حصے میں یہ بتایا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جب کوہ طور پر جانے لگے تو آپ نے اپنی غیر حاضری میں حضرت ہارون (علیہ السلام) کو اپنا جانشین بنایا۔ ہارون (علیہ السلام) اگرچہ آپ سے تین سال بڑے تھے لیکن ان کی حیثیت آپ کے معاون اور ماتحت کی تھی کیونکہ انھیں نبوت آپ کی دعا کے نتیجے میں دی گئی تھی۔ جب کوہ طور پر آپ کو نبوت دی گئی اور آپ کو حکم دیا گیا کہ فرعون کے پاس جاؤ وہ بہت سرکش ہوگیا ہے تو موسیٰ (علیہ السلام) نے فرض کی اہمیت و عظمت اور مشکلات کو دیکھتے ہوئے چند دعائیں مانگی تھیں ان میں سے ایک دعا یہ بھی تھی کہ یا اللہ میرے بھائی ہارون کو میرا وزیر بنا دے تاکہ اس عظیم ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے میں وہ میرے معاون ہوں اور میرے لیے دست وبازو ثابت ہوں۔ چناچہ آپ کی یہ دعا قبول کی گئی اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کو نبوت عطا کی گئی۔ اسی حیثیت کی وجہ سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے حضرت ہارون کو اپنا خلیفہ بنایا۔ جس سے یہ بات خود بخود واضح ہوجاتی ہے کہ حضرت ہارون (علیہ السلام) کی ذمہ داری ان تمام فرائض کو ادا کرنا ہے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بطور رسول ہونے کے ادا کرتے تھے اور ساتھ ہی یہ بھی ہدایت فرمائی کہ بنی اسرائیل ابھی ایک ناتربیت یافتہ قوم ہیں قدم قدم پر انھیں اصلاح کی ضرورت ہے اس لیے ہر وقت ان کی اصلاح کی فکر اور مسلسل نگرانی کرنا۔ جہاں کہیں خرابی دیکھو اس کی درستی کی کوشش کرنا اور تیسری بات یہ فرمائی کہ اس قوم میں ایک مفسدین کا گروہ بھی پایا جاتا ہے دیکھنا وہ میری غیر حاضری سے فائدہ نہ اٹھانے پائیں۔ انھیں حتی الامکان کنٹرول کرنے کی کوشش کرنا اور اگر وہ زور پکڑ لیں تو تم ان کے راستے پر چلنے کے لیے کبھی تیار نہ ہونا یعنی پیغمبر دنیا میں باطل اور کفر کے ساتھ کبھی سمجھوتہ (Compromise) نہیں کرتا۔ اس کی اپنی ذات اس کی دعوت اور اس کے استدلال کا انداز ہمیشہ اپنے اندر ایک انفرادیت رکھتا ہے جس سے مسلسل حق کا اظہار ہوتا ہے۔ جس طرح روشنی اور تاریکی کبھی آپس میں ایک نہیں ہوتیں بلکہ ہرحال میں الگ الگ پہچانی جاتی ہیں اسی طرح پیغمبر اور اس کی دعوت ہمیشہ ایک مینارہ نور بن کر انسانی ہدایت کا کام کرتے ہیں۔ یہ ہدایات دے کر اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کو ذمہ داریاں سونپ کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کوہ طور کی طرف روانہ ہوگئے۔ چناچہ جتنے دنوں کے اعتکاف کا حکم دیا گیا تھا اسے مکمل کرنے کے بعد بارگاہ حق میں جب حاضری دی تو وہاں جو کچھ پیش آیا اور جو گزارشات پیش کیں۔ اگلی آیت کریمہ میں اس کا تذکرہ فرمایا جا رہا ہے :
Top