Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 26
یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِكُمْ وَ رِیْشًا١ؕ وَ لِبَاسُ التَّقْوٰى١ۙ ذٰلِكَ خَیْرٌ١ؕ ذٰلِكَ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰهِ لَعَلَّهُمْ یَذَّكَّرُوْنَ
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ
: اے اولاد آدم
قَدْ اَنْزَلْنَا
: ہم نے اتارا
عَلَيْكُمْ
: تم پر
لِبَاسًا
: لباس
يُّوَارِيْ
: ڈھانکے
سَوْاٰتِكُمْ
: تمہارے ستر
وَرِيْشًا
: اور زینت
وَلِبَاسُ
: اور لباس
التَّقْوٰى
: پرہیزگاری
ذٰلِكَ
: یہ
خَيْرٌ
: بہتر
ذٰلِكَ
: یہ
مِنْ
: سے
اٰيٰتِ
: نشانیاں
اللّٰهِ
: اللہ
لَعَلَّهُمْ
: تاکہ وہ
يَذَّكَّرُوْنَ
: وہ غور کریں
’ اے اولاد آدم ! ہم نے تم پر لباس اتارا ‘ جو ڈھانپتا ہے تمہاری شرم کی جگہوں کو اور زینت بھی۔ مزید برآں تقویٰ کا لباس ہے ‘ جو سب سے بہتر ہے۔ یہ اللہ کی آیات میں سے ہے ‘ تاکہ وہ یاد دہانی حاصل کریں۔
یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِکُمْ وَ رِیْشًا ط وَ لِبَاسُ التَّقْوٰی لا ذٰلِکَ خَیْرٌ ط ذٰلِکَ مِنْ اٰیٰتِ اللہِ لَعَلَّھُمْ یَذَّکَّرُوْنَ ۔ (الاعراف : 26) ” اے اولاد آدم ! ہم نے تم پر لباس اتارا ‘ جو ڈھانپتا ہے تمہاری شرم کی جگہوں کو اور زینت بھی۔ مزید برآں تقویٰ کا لباس ہے ‘ جو سب سے بہتر ہے۔ یہ اللہ کی آیات میں سے ہے ‘ تاکہ وہ یاد دہانی حاصل کریں “۔ بنی آدم اپنے باپ سے ابلیس کی دشمنی کو مت بھولنا اس آیت کریمہ میں ایک ایک لفظ ہمیں غور اور تدبر کی دعوت دیتا ہے سب سے پہلے اس میں یہ دیکھئے کہ خطاب بنی آدم کو ہو رہا ہے کسی خاص انسانی گروہ کو نہیں اور پھر انسان کہہ کر نہیں بلکہ بنی آدم کہہ کر خطاب کیا جا رہا ہے اس میں اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ اے انسانو ! تم آدم کی اولاد ہو ‘ آدم تمہارے جد امجد ہیں۔ کوئی بھی صالح اولاد اپنے باپ، اس کے حالات کو، اسے پیش آنے والے واقعات کو کبھی نہیں بھولتی۔ وہ جب بھی اپنے باپ کا تذکرہ کرتی ہے تو جہاں باپ کے دوستوں کا تذکرہ کرتی ہے وہاں وہ اس کے دشمنوں کو بھی ضرور یاد رکھتی ہے کیونکہ جس طرح باپ کے دوستوں کا یاد کرنا ان کے حقِّ دوستی کو ادا کرنا ہے اسی طرح باپ کے دشمنوں کو یاد رکھنا باپ کی غیرت کا ورثہ ہے اور عرب میں تو اس بات کو خاص اہمیت حاصل تھی وہ نسلوں تک بھی اپنی خاندانی دشمنی کو کبھی فراموش نہیں ہونے دیتے تھے چناچہ اسی پس منظر میں مشرکینِ عرب کو بنی آدم کہہ کر خطاب کیا جا رہا ہے اور انھیں احساس دلایا جا رہا ہے کہ تم اپنے جد امجد کے حوالے سے اور اپنے قومی تفاخر کے حوالے سے اس بات کو یاد رکھنے کے پابند ہو کہ تمہارے جد امجد کا دشمن کون ہے اور وہ کون ذات ہے جس نے تمہارے جد امجد کو جنت میں بھی چین سے رہنے نہیں دیا اور وہاں بھی اسے بہکانے کی خطرناک کوشش کر ڈالی جس کے نتیجے میں اگر اللہ کی رحمت شامل حال نہ ہوتی تو وہ تمہارے جد امجد کو تباہ کرنے میں کامیاب ہو ہی گیا تھا اس لیے تم پر لازم ہے کہ ایسے خطرناک دشمن کو جس نے اولادِآدم کو گمراہ کرنے کی نہ صرف قسم کھا رکھی ہے بلکہ اس نے چیلنج بھی دے رکھا ہے کبھی بھولنے کی حماقت نہ کرنا اور ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی یاد رکھنا کہ اس نے تمہارے جد امجد پر جو سب سے پہلا حملہ کیا وہ وہ تھا جس نے انھیں حلہ جنت سے محروم کردیا اور وہ برہنگی کا شکار ہوئے اس لیے تم پر بھی جب وہ حملہ کرے گا تو کوئی تعجب کی بات نہیں کہ وہ سب سے پہلے تمہارے جنسی احساسات کو بگاڑ کر تمہیں بےلباس کر دے اور اس طرح تمہارے کپڑے اتارے کہ تم اخلاقی صفات سے بالکل محروم ہوجاؤ۔ چناچہ اس خطاب میں ان تمام احساسات کو بیدار کرنے کے بعد پھر فرمایا جا رہا ہے کہ چونکہ اس شیطان نے سب سے پہلے تمہارے والدین کو بےلباس کر کے اپنی گمراہی کا آغاز کیا تھا تمہارے ساتھ بھی اندیشہ ہے کہ وہ ایسا ہی نہ کرے اس لیے ہم سب سے پہلے تمہیں بتاتے ہیں کہ اللہ نے تم پر ایک لباس نازل کیا ہے یعنی تمہاری فطرت پر اس کا الہام کیا ہے کہ جس طرح تمہارے رب نے تمہارے والدین کو حلہ جنت کی صورت میں ایک لباس عطا کیا تھا جو ان کی انسانیت اور ان کی شخصیت کا نمائندہ تھا اس طرح ہم تمہیں بھی ایک لباس دے رہے ہیں اگر تم اس میں ملبوس رہو گے اور پوری طرح اس کا حق ادا کرو گے تو انسانیت کے برہنہ ہونے سے بچ جاؤ گے۔ چناچہ یہاں جو اَنْزَلْنَا کا لفظ استعمال ہوا ہے وہ اسی فطری الہام کی طرف اشارہ ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جو صفات یا جو احکام انسانی زندگی کے لیے اساسی حیثیت رکھتے ہیں اللہ تعالیٰ انسانوں کو پیدا کرتے ہی ان کی فطرت پر ان کا الہام کردیتا ہے اور پھر وحی الٰہی ان کو متشکل اور مسجع کرنے میں مدد دیتی ہے یہاں بھی یہی فرمایا جا رہا ہے کہ تمہیں جو لباس کے تفصیلی احکام دیئے گئے ہیں یہ تو نزول شریعت کے بعد کی بات ہے لیکن تمہاری شخصیت کی تعمیر کے لیے چونکہ لباس کو ایک اساسی حیثیت حاصل ہے اس لیے ہم نے پہلے ہی دن تمہاری فطرت پر اس کا الہام کردیا تھا اس کے بعد اس لباس کی جو ضروری صفات ہیں ان کا ذکر فرمایا جا رہا ہے۔ لباس کی پہلی صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ لباس کو ساتر ہونا چاہیے یعنی لباس ایسا ہو جو تمہاری شرم کی جگہوں کو ڈھانپ دے اور اگر وہ لباس سترپوشی کا کام نہیں دیتا اس کے علاوہ چاہے وہ کتنے ہی افادیت کے پہلو رکھتا ہو وہ ہرگز لباس کہلانے کا مستحق نہیں۔ لباس سے مقصود ستر پوشی بھی ہے اور زینت بھی لباس کی دوسری صفت یہ ہونی چاہیے کہ وہ ریش کا کام دے۔ ریش کا لفظ چڑیوں کے پروں کے لیے بھی آتا ہے اور اس سے زیب وزینت کا لباس بھی مراد ہوتا ہے یعنی لباس ایسا ہونا چاہیے جو موسم کی شدت سے بھی حفاظت کرے اور انسانی شخصیت ‘ انسانی وقار میں اضافے کا باعث بھی بنے۔ قرآن کریم نے لباس کو زینت قرار دے کر شاید اس جوگیانہ تصور کی نفی کی ہے جو لباس کو ایک آلائش اور عریانی یا نیم عریانی کو مذہبی تقدس کا درجہ دیتا ہے ان کے نزدیک لباس انسان کی وقت کے ساتھ ساتھ پیدا کی جانے والی ضرورتوں میں سے ہے جیسے جیسے انسانی تہذیب آگے بڑھی ہے ویسے ویسے نئی نئی چیزیں وجود میں آئی ہیں اور انہی میں سے ایک لباس بھی ہے ورنہ انسان اپنی فطری سادگی میں جب تک زندگی گزارتا رہا ہے یا تو وہ لباس سے بالکل آزاد تھا اور یا زیادہ سے زیادہ وہ لنگوٹی باندھتا تھا اس سے زیادہ اسے کسی اور لباس کی ضرورت نہیں تھی لیکن یہاں قرآن کریم پہلے انسان کی سرگزشت بیان کرتے ہوئے اس تصور کا ابطال کر رہا ہے کہ پہلے انسان کی فطرت پر لباس کا الہام کیا گیا اور اس حد تک شرم و حیا اس کی طبیعت میں راسخ کردیا گیا کہ جیسے ہی شیطان نے اس کو بےلباس کیا تو وہ سراسیمہ ہو کر رہ گیا اور شرم کے مارے اس نے اپنے آپ کو پتوں سے ڈھانپنے کی کوشش کی اور مزید یہ فرمایا جا رہا ہے کہ لباس کو جہاں ہم نے ستر پوش بنایا ہے وہاں انسانی شخصیت کو تشکیل دینے والا بھی بنایا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ ہمیں یہ تأثر بھی ملتا ہے کہ لباس کو اگرچہ موسم کی شدت سے بچنے اور شخصیت کی تعمیر کا ذریعہ بنایا گیا ہے لیکن اس کی جو پہلی شناخت ہے وہ اس کا سترپوش ہونا ہے اگر ایک لباس موسم کی شدت سے بچانے اور زینت آرائی میں بھی اپنی مثال آپ ہے بلکہ وہ سرتاپا زینت ہی زینت ہے لیکن وہ سترپوشی میں ناکام رہتا ہے تو قرآن کریم کی نگاہ میں وہ لباس کہلانے کا مستحق نہیں یہی وجہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ان عورتوں پر لعنت فرمائی ہے جو لباس پہن کر بھی ننگی ہوتی ہیں یعنی یا ان کا لباس بہت تنگ ہوتا ہے اور یا بہت باریک ہوتا ہے۔ اصل مقصود لباس تقویٰ ہے ‘ کی وضاحت تیسری بات لباس کے سلسلے میں جو فرمائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اسے لباس تقویٰ ہونا چاہیے اور یہ لباس پہلے دونوں لباسوں کی نسبت اللہ کی نگاہ میں پسندیدہ ہے اس سے مراد یہ ہے کہ ایک تو لباس وہ ہے جو انسانی جسم پر نظر آتا ہے جو ستر پوش بھی ہے اور باعث زینت بھی لیکن ایک لباس وہ ہے جو انسان کی اندر کی شخصیت کو پہنایا جاتا ہے۔ یہ وہ لباس ہے جسے خشیت الٰہی ‘ شرم و حیا اور احساس عبدیت کا نام دیا جاتا ہے یہی وہ لباس ہے جو خوف خدا سے وجود میں آتا ہے۔ اگر انسان کی اندرونی شخصیت بےلباس ہے اور یہ لباس تقویٰ اس کے نصیب میں نہیں ہوا تو باہر کی شخصیت کو آپ چاہے کتنا بھی ملبوس کر دیجئے حقیقت میں وہ ننگا ہی رہے گا اور اگر اس کے اندر لباس تقویٰ موجود ہے اور اس کی باہر کی شخصیت اگر چیتھڑوں میں بھی ملبوس ہو تو وہ برہنگی سے پاک انسانی وقار کا ایسا نمونہ ہوگی جس پر انسانیت رشک کرے گی حقیقت تو یہ ہے کہ یہ لباس تقویٰ یعنی اندر کے شرم و حیا کا جذبہ ہی ہے جو باہر کے لباس کی ضرورت پیدا کرتا ہے۔ جب اندر سے آدمی بےلباس ہوجاتا ہے تو پھر باہر کے لباس کو وہ اپنی شخصیت کے لیے ایک بوجھ سمجھنے لگتا ہے۔ برہنگی اسے عزیز ہوجاتی ہے وہ فیشن کے نام سے اور کبھی تہذیب کے نام سے بےلباس ہونے کو اپنا مقصد زندگی بنا لیتا ہے۔ جیسے جیسے اس کا لباس اترتا جاتا ہے وہ اپنے آپ کو مہذب سمجھتا ہے اور لباس اس کی نگاہ میں دقیانوسی رویہ بن کے رہ جاتا ہے۔ لباس تقویٰ سے چونکہ باہر کا لباس خاص شکل اختیار کرتا ہے اور انسانی احساسات بھی خاص قالب میں ڈھلنے لگتے ہیں اس لیے شریعت نے اس کو علی الاطلاق نہیں چھوڑا بلکہ اس نے اس حوالے سے بھی راہنمائی عطا فرمائی ہے۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ لباس تقویٰ وہ ہے جو پوری طرح ساتر ہو ‘ زینت میں بھی حد سے بڑھا ہوا یا آدمی کی حیثیت سے گرا ہوا نہ ہو۔ یعنی ایسا بھی نہ ہو کہ لوگ اس کی طرف انگلیاں اٹھائیں کہ دیکھو اس شخص نے کس قدر قیمتی اور کیسا بھڑکیلا لباس پہن رکھا ہے اور ایسا بھی نہ ہو کہ اللہ نے جو اس کو مالی حیثیت دے رکھی ہے اس سے بہت فروتر ہو کہ دیکھنے والا اسے نادار اور قلاش سمجھ کر اس کی مدد کرنے کے لیے تیار ہوجائے۔ اسی طرح اس کے لباس میں فخر و غرور اور تکبر و ریا کا کوئی شائبہ نہ ہو اور ان ذہنی امراض کی نمائندگی بھی نہ کرتا ہو جن کی بنا پر مرد ‘ زنانہ پن اختیار کرتے ہیں اور عورتیں مردانہ پن کی نمائش کرنے لگتی ہیں اور ایک قوم دوسری قوم کے مشابہ بننے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کے بعد فرمایا : ذٰلِکَ مِنْ اٰیٰتِ اللہِ لَعَلَّھُمْ یَذَّکَّرُوْنَ ۔ اٰیٰتِ اللہ کا ترجمہ دو صورتوں میں ہوسکتا ہے۔ ایک اللہ کی نشانیاں اور دوسرا اللہ کی آیات۔ پہلے ترجمے کی صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح انسانی لباس کی ضرورت کو انسانی شخصیت کی تعمیر کے لیے لازمی ٹھہرایا اور پھر جس طرح اس کی شخصیت پر اس کا الہام کیا اور پھر صرف ظاہری لباس تک بات کو محدود نہیں رکھا بلکہ انسان کی اندرونی شخصیت اور بیرونی شخصیت کو ہم آہنگ کرنے کی بھی ہدایت فرمائی بلکہ احساس کی دولت اس کے اندر ودیعت فرما کر باہر کی شخصیت کے لیے معاون بنادیا۔ اس حقیت پر جب ہم غور کرتے ہیں تو صاف نظر آتا ہے کہ یہ لباس بھی اللہ کی ان بیشمار نشانیوں میں سے ایک ہے جو حقیقت تک پہنچنے میں انسان کی مدد کرتی ہیں اس پر آدمی جیسے جیسے غور کرتا ہے اسے اس بات کا یقین پیدا ہوتا جاتا ہے کہ انسانی لباس کو ستر پوش اور زینت قرار دینا اور پھر لباس تقویٰ کی شکل میں اسے اصل ہدف بنادینا اور انسانی فطرت پر اس کے الہام کی صورت میں اسے ایک محرک کی شکل دے دینا یہ اللہ کی نشانی کے سوا یا اس کی ذات کی طرف راہنمائی دینے والی چیز کے سوا اور کوئی چیز نہیں ہوسکتی۔ دوسرے ترجمے کی صورت میں مفہوم یہ ہوگا کہ یہ جو لباس کا الہام اور اس کی تفصیل وحی الٰہی کی شکل میں انسانوں کو عطا فرمائی گئی ہے یہ اللہ کی ان ہدایات میں سے ہے جو اس نے حضرت آدم کو دنیا میں بھیجتے ہوئے عطا فرمائی تھیں جس کا ذکر سورة البقرہ میں بھی کیا گیا ہے اور یہاں بھی آیت نمبر 35 میں اس کا ذکر آرہا ہے جس میں ارشاد فرمایا گیا ہے : یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ اِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ رُسُلٌ مِّنْکُمْ یَقُصُّوْنَ عَلَیْکُمْ اٰیٰتِیْ لا فَمَنِ اتَّقٰی وَ اَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْنَ ” اے بنی آدم ! اگر تمہارے پاس تمہی میں سے رسول آئیں ‘ تمہیں میری آیات سناتے ہوئے تو جس نے تقویٰ اختیار کیا اور اپنی اصلاح کی ‘ ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ ان کو غم لاحق ہوگا “ اور آخر میں فرمایا کہ جس طرح آدم و حوا کو ہم نے ہدایات دے کر بھیجا تھا اب تمہیں بھی انہی ہدایات میں سے کچھ باتوں کی یاددہانی کرائی جارہی ہے تاکہ تم شیطان کے نرغے میں آنے سے بچ جاؤ کیونکہ شیطان تم پر بھی ویسے ہی حملے کرے گا اور وہی دائو چلائے گا جو اس نے تمہارے جدِ امجد پر چلائے تھے۔ اگلی آیت کریمہ میں اسی بات کو کھول کر تنبیہ اور وارننگ کے انداز میں بیان کیا جا رہا ہے۔
Top