Ruh-ul-Quran - Al-Anfaal : 20
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَ اَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَۚۖ   ۧ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے اَطِيْعُوا : حکم مانو اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول وَلَا تَوَلَّوْا : اور مت پھرو عَنْهُ : اس سے وَاَنْتُمْ : اور جبکہ تم تَسْمَعُوْنَ : سنتے ہو
اے ایمان والو ! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اس سے روگردانی نہ کرو اس حال میں کہ تم سنتے ہو
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓااَطِیْعُوْا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَا تَوَلَّوْا عَنْہُ وَاَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَ ۔ ج (الانفال : 20) (اے ایمان والو ! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اس سے روگردانی نہ کرو اس حال میں کہ تم سنتے ہو۔ ) منافقین کو خطاب گزشتہ دو رکوعوں میں ہم نے دیکھا کہ خطاب نبی کریم ﷺ سے رہا یا مسلمانوں سے روئے سخن تمام تر مسلمانوں سے متعلق رہا۔ مسلمانوں میں بیخبر ی یا انسانی کمزوری کے باعث اگر کوئی کمزوری پیدا ہوئی تو اس پر تنبیہ فرمائی۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ ان کے اخلاص اور استقامت کا ثمر یہ دیا کہ مسلسل ان پر عنایات فرمائیں اور پھر ایک ایک عنایت کا تذکرہ بھی فرمایا اور مزید یہ کہ ان عنایات کی صورت میں جو باتیں پیش نظر رکھنے کی تھیں ان کی طرف بھی توجہ دلائی۔ جس سے عقیدے میں قوت پیدا ہوئی اور آئندہ ہمیشہ کے لیے اسلامی زندگی کو ایک راہنمائی میسر آئی۔ جب ہم مسلمانوں پر اللہ کی عنایات اور اس کے ابرکرم کو برستا ہوا دیکھتے ہیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اصحابِ بدر اللہ کی نگاہ میں مقبول ترین لوگ ہیں یہ امت مسلمہ کا وہ ہر اول دستہ ہے جنھوں نے اپنے خون کی روشنائی سے تاریخ کا سنہری باب رقم کیا ہے اور اپنی استقامت سے حق و باطل میں فرقان بن گئے ہیں۔ قیامت تک کے لیے ان کا یہ کارنامہ درخشندہ وتابندہ رہے گا اور آنے والی نسلیں اس سے ہمیشہ حوصلہ پائیں گی۔ اہلِ بدر کی قربانی اور استقامت میں صرف یہی نہیں کہ اللہ سے فتح ونصرت کا انعام پایا ہے بلکہ آنحضرت ﷺ کے ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ انھیں مستقل مغفرت کے ساتھ ساتھ فضائل ورفعِ درجات کی ایسی بشارتیں ملی ہیں جس نے ان کا مقام و مرتبہ باقی تمام صحابہ سے بلند کردیا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ جب آنحضرت ﷺ فتحِ مکہ کے لیے قریش مکہ پر لشکر کشی کی تیاریوں میں مصروف تھے تو آپ کی خواہش یہ تھی کہ ہماری تیاریوں کی خبر قریش مکہ تک نہ پہنچنے پائے تاکہ ہم اچانک مکہ پر حملہ آور ہوں اور انھیں سنبھلنے کا موقعہ دیئے بغیر مکہ فتح کرلیں۔ اس سے حرم کی حدود میں خون ریزی کا اندیشہ کم سے کم ہوجائے گا۔ لیکن اچانک ایک واقعہ پیش آیا جس نے صحابہ کرام کو مشتعل کردیا۔ واقعہ یہ ہوا کہ حاطب ابن بلتعہ ( رض) جو اصحابِ بدر میں سے تھے انھوں نے مکہ والوں کو ایک خط لکھا جو مکہ معظمہ جانے والی ایک عورت کے ہاتھ بھیجا۔ جس میں یہ اطلاع دی گئی تھی کہ نبی کریم ﷺ عنقریب تم پر حملہ آور ہونے والے ہیں۔ آنحضرت ﷺ کو وحی الہٰی کے ذریعے اس کی اطلاع دی گئی چناچہ آپ نے دو صحابہ کو اس عورت کے تعاقب میں بھیجا اور آپ نے بتادیا کہ وہ تمہیں فلاں جگہ جاتی ہوئی مل جائے گی۔ انھوں نے اسے جاپکڑا اور اس سے خط کے بارے میں پوچھا تو اس نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ حضرت علی ( رض) نے اسے دھمکی دی کہ اس بات میں تو شبہ کی کوئی گنجائش ہی نہیں کہ خط تمہارے پاس ہے کیونکہ اس کی اطلاع نبی کریم ﷺ ہمیں دے چکے ہیں۔ البتہ ! یہ ممکن ہے کہ تم نے ایسی جگہ چھپایا ہو جہاں انسانی نظر مشکل سے پہنچتی ہے تو ہمیں اس کے لیے اگر تمہیں برہنہ بھی کرنا پڑا تو ہم اس سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔ اس نے جب دیکھا کہ یہ معاملہ ٹلنے والا نہیں تو اس نے اپنے سر کے بالوں میں چھپایا ہوا خط نکال کر ان کے حوالے کردیا اور اس نے بتایا کہ مجھے حاطب نے یہ خط دیا ہے۔ جب یہ بات یقینی ہوگئی کہ حضرت حاطب نے ایک ایسی غلطی کی ہے جو اسلامی ریاست سے غداری کے مترادف ہے تو حضرت عمر فاروق ( رض) نے آنحضرت ﷺ سے اجازت طلب کی کہ آپ مجھے اجازت دیں میں اسے قتل کردوں کیونکہ یہ شخص منافق ہے۔ اس پر آنحضرت ﷺ نے حضرت عمر فاروق ( رض) سے فرمایا کہ ” عمر ! تم کیا جانو کہ اللہ نے اہل بدر کو ایک نظر دیکھا اور فرمایا آج کے بعد تم جو چاہو کرو تمہیں کوئی گناہ نقصان نہیں دے گا۔ حاطب نے بڑا قصور کیا ہے لیکن وہ اہل بدر میں سے ہیں۔ وہ یقینا منافقین میں سے نہیں ہوسکتے “۔ حاطب ( رض) کو بلا کر پوچھا گیا تو انھوں نے بتایا کہ حضور میں ایک مخلص مسلمان ہوں میرے اخلاص میں کوئی شبہ نہیں میری اس غلطی کا سبب یہ ہے کہ میرے اہل خانہ ابھی تک مکہ معظمہ میں ہیں اور قریش کے رحم و کرم پر ہیں۔ میں نے قریش پر یہ ایک چھوٹا سا احسان کرکے یہ چاہا ہے کہ وہ میرے بچوں کو نقصان نہ پہنچائیں۔ میرے اطلاع دینے سے انشاء اللہ اللہ تعالیٰ کی مشیت نہیں بدلے گی اور اسلامی کاز کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا البتہ یہ امید ضرور پیدا ہوجاتی ہے کہ اس احسان کے بدلے میں قریش میرے بچوں کی حفاظت کریں گے۔ اس واقعہ سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں اہل بدر کا مقام و مرتبہ کیا ہے۔ ایک طرف تو یہ بات ذہن میں رکھئے اور دوسری طرف پیش نظر آیت کریمہ کا لب و لہجہ اور تنقیدی اسلوب جو اگلی آیات میں اور نکھر گیا ہے وہ بھی پیش نظر رکھئے تو خو بخود یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بظاہر یہ خطاب مسلمانوں سے ہے لیکن حقیقت میں یہ خطاب اہل بدر سے نہیں بلکہ مدینہ کے منافقین سے ہے۔ اہل بدر تو وہ ہیں جنھوں نے جنگ بدر میں اپنے ایمان کا ثبوت دیا لیکن مدینہ طیبہ میں اہل بدر کے ساتھ ساتھ جہاں کچھ دوسرے مخلص مسلمان ہیں وہیں ان کے ساتھ ایک محدود تعداد منافقین کی بھی ہے اور آیات کے اسلوب سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ منافقین وہ ہیں جو یا تو یہود میں سے آئے ہیں اور یا یہود کے زیر اثر ہیں۔ کیونکہ اگلی آیت کریمہ میں جن لوگوں کی مشابہت سے روکا گیا ہے وہ یقینا یہود ہیں۔
Top