Ruh-ul-Quran - Al-Anfaal : 5
كَمَاۤ اَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِنْۢ بَیْتِكَ بِالْحَقِّ١۪ وَ اِنَّ فَرِیْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ لَكٰرِهُوْنَۙ
كَمَآ : جیسا کہ اَخْرَجَكَ : آپ کو نکالا رَبُّكَ : آپ کا رب مِنْ : سے بَيْتِكَ : آپ کا گھر بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ وَاِنَّ : اور بیشک فَرِيْقًا : ایک جماعت مِّنَ : سے (کا) الْمُؤْمِنِيْنَ : اہل ایمان لَكٰرِهُوْنَ : ناخوش
اسی طرح نکالا آپ کو آپ کے رب نے آپ کے گھر سے ایک مقصد حق کی خاطر اور اہل ایمان کی ایک مختصر ٹولی ناخوش تھی
کَمَااَخْرَجَکَ رَبُّکَ مِنْ م بَیْتِکَ بِالْحَقِّ ص وَاِنْ فَرِیْقًامِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ لَکٰرِھُوْنَ ۔ لا یُجَادِلُوْنَکَ فِی الْحَقِّ بَعْدَ مَا تَبَیَّنَ کَاَنَّمَا یُسَاقُوْنَ اِلَی الْمَوْتِ وَھُمْ یَنْظُرُوْنَ ۔ ط (الانفال : 5، 6) (اسی طرح نکالا آپ کو آپ کے رب نے آپ کے گھر سے ایک مقصد حق کی خاطر اور اہل ایمان کی ایک مختصر ٹولی ناخوش تھی۔ وہ آپ سے حق کے بارے میں جھگڑتے تھے اس کے بعد کہ حق ظاہر ہوچکا تھا گویا کہ وہ موت کی طرف ہانکے جارہے تھے اور وہ دیکھ رہے تھے۔ ) کما کا مفہوم قرآن کریم نے ” کذلک، کدأبک، کما “ یہ تینوں الفاظ مختلف مواقع پر تشریح کے لیے استعمال کیے ہیں۔ البتہ ! دوسرے حروفِ تشبیہ اور ان میں فرق یہ ہے کہ ان میں مشبہ اور مشبہ بہٖ متعین نہیں ہوتے بلکہ ایک واقعہ کو دوسرے واقعہ سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ پیش نظر دونوں کا انجام ہوتا ہے اور یہ انجام اور نتیجہ دونوں واقعات میں مشابہت کا ذریعہ بنتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس آیت کریمہ میں ” کما “ کا لفظ تشبیہ کے لیے آیا ہے۔ تو تشبیہ کس چیز کو کس چیز سے دی گئی ہے۔ اس سلسلے میں اہل علم کے مختلف اقوال ہیں۔ امامِ تفسیر ابو حیان نے تقریباً پندرہ (15) اقوال نقل کیئے ہیں۔ لیکن پوری صورتحال پر غور کرنے کے بعد دو مفہوم ایسے ہیں جو زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتے ہیں۔ 1 اس سورة کی پہلی آیت میں مسلمانوں کی طرف سے مال غنیمت کے بارے میں ایک سوال کا ذکر کیا گیا ہے اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سوال کی نوبت اس لیے آئی کہ جن لوگوں نے مال غنیمت جمع کیا تھا اور وہ ان کے قبضے میں تھا وہ عرب کی روایت کے مطابق یہ سمجھ رہے تھے کہ مال غنیمت اس کا ہوتا ہے جس کے قبضے میں ہو تو اس لیے یہ مال ہمارا ہے۔ دوسرے مسلمان اس میں شریک نہیں ہیں۔ اس سے اختلاف پیدا ہوا اور اس کے اثرات دلوں تک پہنچے چناچہ پروردگار نے اس پر تنبیہ فرمائی اور اصلاح کے لیے ہدایات جاری فرمائیں۔ اس آیت کریمہ میں یہ فرمایا جارہا ہے کہ جس طرح تم نے مال غنیمت کے معاملے میں ایک غلطی کا ارتکاب کیا اگر اللہ تعالیٰ تمہیں بروقت ہدایت سے نہ نوازتا اور تمہیں اطاعتِ رسول کی توفیق نہ دیتا تو مال غنیمت میں پیدا ہونے والے اختلافات بعض دفعہ بڑی بڑی جنگوں میں بھی جیتی ہوئی بازی کو شکست میں تبدیل کردیتے ہیں۔ تو جس طرح تم نے مال غنیمت کے معاملے میں غلط اندیشی کا ثبوت دیا اسی طرح تم میں سے کچھ لوگوں نے اس وقت بھی غلط اندیشی کا ثبوت دیا جب نبی کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ ایک مقصد حق کی خاطر گھر سے نکلنے کا حکم دے رہا تھا۔ اس پر بھی اللہ کا کرم یہ ہوا کہ تم نے اپنی بات پر ضد کرنے کی بجائے صحیح بات کو قبول کیا تو اللہ تعالیٰ نے مال غنیمت کے اختلاف کی طرح اس اختلاف کو بھی ختم کردیا اور نہ صرف اس کے برے نتائج سے بچایا بلکہ بہتر نتائج سے نوازا۔ 2 بعض اہل علم کا خیال ہے کہ یہاں ” کما “ کا لفظ تشبیہ کے لیے نہیں بلکہ بیان سبب کے لیے ہے اور اس سے پہلے ” نصرک “ محذوف ہے۔ اس صورت میں آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ غزوہ بدر میں پروردگار کی جانب سے رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کی جو نصرت وامداد فرمائی گئی اس کا سبب یہ تھا کہ آپ اس جہاد کے لیے اپنی کسی نفسانی خواہش کے لیے نہیں نکلے تھے۔ آپ کے پیش نظر کوئی مالی یا سیاسی منفعت نہیں تھی بلکہ آپ خالصۃً حکمِ خداوندی کے تابع ہو کر نکلے تھے اور ایک مقصد حق کے حصول کے سوا کوئی اور مقصد آپ کے پیش نظر نہیں تھا۔ بلاشبہ آپ کے ساتھیوں میں سے ایک محدود تعداد ایسی بھی تھی جو اس نکلنے میں خوش نہ تھی۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اپنی عنایات سے نوازا اور اپنی نصرت اور تائید سے آپ کو کامیاب فرمایا۔ بدر کے لیے آنحضرت کا نکلنا ایماء الہٰی سے اور ایک مقصد حق کے لیے تھا اب اس کے مندرجات کو ملاحظہ فرمائیے۔ اس آیت کریمہ میں پہلی بات یہ فرمائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو ان کے گھر یعنی مدینہ منورہ سے ایک مقصد حق کے لیے نکلنے کا حکم دیا۔ اس میں پہلی بات تو یہ صاف ہوجاتی ہے کہ آپ خود کسی مقصد کے لیے نہیں نکلے تھے بلکہ آپ کا نکلنا اللہ کے حکم سے تھا اور اس کا ایک خاص مقصد تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ مقصد کیا تھا ؟ تیسری آیت کریمہ میں فرمایا ہے کہ : یُرِیْدُاللّٰہُ اَنْ یَّحِقّ الْحَقَّ بِکَلِمٰتِہٖ وَیَقْطَعَ دَابِرَالْکٰفِرِیْنَ (اللہ تعالیٰ چاہتا تھا کہ حق کو حق ثابت کرے اور کافروں کی جڑ کاٹ دے۔ ) مقصدِ حق کے بروئے کار آنے کی صورت یہ وہ مقصد حق تھا جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو نکلنے کا حکم دیا تھا۔ جن لوگوں کی نظر قوموں کے عروج وزوال کے اسباب پر ہے اور وہ جانتے ہیں کہ قوموں کی عزت و حشمت اور ان کی بقا کے اساسی وسائل کیا ہوتے ہیں۔ ان کے لیے یہ بات سمجھنا کوئی مشکل نہیں کہ قریش کا قافلہ تجارت اگرچہ اپنے ساتھ سیاسی اور جنگی مقاصد بھی رکھتا تھا اس لیے مکہ کے ہر مردو عورت نے مقدور بھر اس میں شرکت کی تھی اور یہ فیصلہ کیا تھا کہ اس کے پس انداز کو مسلمانوں کے استیصال کے لیے صرف کیا جائے گا۔ باایں ہمہ ! یہ ایک حقیقت ہے کہ قریش مکہ کی اصل طاقت ان کے قافلہ تجارت پر منحصر نہیں تھی، ان کی طاقت کا سب سے بڑا ذریعہ ان کی افرادی قوت اور جنگی مہارت تھی۔ یہ قافلہ تجارت شائد بھیجا ہی اس لیے گیا تھا کہ مسلمان اسے روکنے کے لیے نکلیں گے اور یا ہم ایک مفروضہ قائم کرکے قافلے کو بچانے کا نام دے کر مسلمانوں پر لشکر کشی کریں گے اور اس طرح سے ہمیں اس نوزائیدہ قوت کے استیصال کرنے کا موقع مل جائے گا۔ عرب ہمیں قطع رحمی کا طعنہ بھی نہیں دیں گے بلکہ وہ یہ سمجھیں گے کہ جب مسلمانوں نے خود ہی ایسے حالات پیدا کیے تو پھر قریش مکہ اس آخری اقدام کے لیے مجبور تھے۔ اس صورتحال میں یہ سمجھنا کہ نبی کریم ﷺ قافلہ تجارت کو لوٹنے کے لیے نکلے تھے یہ قرآن کریم کی وضاحت کے سراسر خلاف ہے کیونکہ اگر آپ اس کے لوٹنے کے لیے نکلتے اور آپ اس میں کامیاب بھی ہوجاتے تو اس کے نتیجے میں قریش اور اس کے حریفوں کی بےپناہ یورش کا مقابلہ کرنا آپ کے لیے آسان نہ ہوتا وہ درانہ وار مدینہ پر حملہ آور ہوتے اور ان کے حریف قبائل یہ محسوس کرکے کہ ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے یقینا ان کا ساتھ دیتے اور پھر صورتحال بالکل مختلف ہوتی اور اگر فرض کریں کہ وقتی طور پر یہ آندھی نہ بھی اٹھتی تو آئندہ کسی وقت بھی پوری قوت سے اس طوفان کا اٹھنا اسی طرح قرین قیاس تھا جس طرح جنگ خندق میں اس کے اسباب پیدا ہوئے اور اس وقت تک مسلمان معاشرہ اتنے بڑے طوفان کا سامنا کرنے کی صلاحیت سے بہرور نہیں ہوا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ جیسے ہی نبی کریم ﷺ کو یہ اطلاع ملی کہ ایک طرف سے قافلہ آرہا ہے اور دوسری طرف سے قریش کا لشکر تو آپ سمجھ گئے کہ اب فیصلہ کن وقت آپہنچا ہے۔ اب آگے بڑھ کر میدان میں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ جینے کی صلاحیت کس میں ہے ورنہ مسلمانوں کی ایسی ہوا خیزی ہوگی کہ مدینہ کے اڑوس پڑوس میں رہنے والے قبائل اور خود مدینہ کی اندرونی قوتیں مسلمانوں پر دلیر ہوجائیں گی۔ اس لیے پروردگار نے مدینہ ہی سے آپ کو اس مقصد حق کی بجا آوری کے لیے بدر کی طرف نکلنے کا حکم دیا۔ لیکن مسلمانوں میں سے ایک مختصر سا گروہ جو یقینا مخلص لوگوں پر مشتمل تھا۔ لیکن بعض مخلص لوگ زیادہ محتاط بھی ہوتے ہیں۔ ان کی احتیاط پسندی کی وجہ سے ایسی صورتحال پیدا ہوئی کہ وہ لشکر ِ قریش کی طرف نکلتے ہوئے ناخوشی محسوس کررہے تھے اور آنحضرت ﷺ کو قائل کرنے کی کوشش کررہے تھے کہ ابھی ہمیں قافلہ تجارت کی طرف نکلنا چاہیے جب طاقت مل جائے گی تو پھر ہم قریش سے بھی دو دو ہاتھ کرلیں گے۔ لیکن اس بےسروسامانی اور محدود افرادی قوت کے ساتھ اتنے بڑے طوفان کا رخ کرنا موت کے منہ میں جانے کے مترادف ہے۔ ان دونوں آیتوں کو سامنے رکھتے ہوئے صاف محسوس ہوتا ہے کہ لشکر قریش کی طرف جانے کا فیصلہ گھر سے نکلتے ہوئے ہوا ہے یعنی مدینہ طیبہ ہی میں یہ بات طے ہوگئی تھی کہ ہمیں جانا کدھر ہے اور کس مقصد کے لیے جانا ہے اور اسی کو دیکھتے ہوئے مسلمان دلوں میں سہم رہے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ کفار کے لشکر کی تعداد بہت بڑی ہے اور ان کے پاس اسلحہ جنگ کی بھی فراوانی ہے۔ اگر بجائے لشکرِ قریش کے قافلہ تجارت کی طرف جانا ہوتا تو اس کے محافظوں کی تعداد تو چالیس یا ستر بیان کی جاتی ہے۔ اس کے لیے نہ تو تین سو تیرہ (313) افراد کی ضرورت تھی اور نہ مسلمانوں کے دلوں میں کسی اندیشہ کے درآنے کا کوئی موقعہ تھا۔ اس لیے بعض اصحابِ سیر کا یہ سمجھنا کہ مدینہ سے تو حضور قافلہ کے ارادے سے نکلے تھے لیکن راستے میں جاکر خبر ہوئی کہ قریش کا ایک لشکر عظیم آرہا ہے اور مزید یہ بات کہ اگر حضور قافلے کے لیے نکلتے تو آپ کا رخ ملک شام کی جانب ہوتا، آپ بدر کی طرف رخ کرکے کبھی سفر کا آغاز نہ کرتے کیونکہ قافلہ ملک شام سے آرہا تھا۔ اسے کسی ایسی جگہ روکنے کی کوشش کرنی چاہیے تھی جہاں قریب قریب قریش کا کوئی حریف قبیلہ موجود نہ ہو تاکہ وہ اس کی مدد کے لیے نہ پہنچ سکیں اور وہ اسی صورت میں ممکن تھا کہ شام اور مدینہ کے مابین کسی جگہ قافلہ کو روکا جائے ورنہ جہاں تک مدینہ اور مکہ کے درمیان پھیلے ہوئے قبائل کا تعلق ہے ان میں بیشتر قریش کے زیر اثر تھے۔ البتہ ! یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ قافلہ تجارت کا نام مسلمانوں کی زبان پر کیسے آیا ؟ اس کا جواب اگلی آیت کریمہ سے ملتا ہے۔
Top