Tafseer-e-Saadi - Aal-i-Imraan : 148
فَاٰتٰىهُمُ اللّٰهُ ثَوَابَ الدُّنْیَا وَ حُسْنَ ثَوَابِ الْاٰخِرَةِ١ؕ وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ۠   ۧ
فَاٰتٰىھُمُ : تو انہیں دیا اللّٰهُ : اللہ ثَوَابَ : انعام الدُّنْيَا : دنیا وَحُسْنَ : اور اچھا ثَوَابِ الْاٰخِرَةِ : انعام آخرت وَاللّٰهُ : اور اللہ يُحِبُّ : دوست رکھتا ہے الْمُحْسِنِيْنَ : احسان کرنے والے
تو خدا نے انکو دنیا میں بھی بدلہ دیا اور آخرت میں بھی بہت اچھا بدلہ دے گا اور خدا نیکوکاروں کو دوست رکھتا ہے
آیت 148 یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے اہل ایمان کے لئے تسلی ہے اور ان کے فعل کی اقتداء کی ترغیب ہے اور اس حقیقت سے آگاہ کرنا ہے کہ (حق و باطل کی کشمکش کا) یہ معاملہ شروع ہی سے چلا آرہا ہے اور ازل سے اللہ تعالیٰ کی سنت جاری ہے۔ چناچہ فرمایا : (وکاین من نبی) ” یعنی کتنے ہی نبی ہیں “ (قتل معہ ریبون کثیر) ” جن کے ساتھ ہو کر اکثر اللہ والوں نے قتال کیا ہے۔ “ یعنی انبیاء کرام کے پیروکاروں کی بہت سی جماعتوں نے، جن کی انبیاء نے ایمان اور اعمال صالحہ کے ذریعے سے تربیت کی، جہاد کیا، پس وہ شہید ہوئے اور انہوں نے زخم کھائے (فما وھنوا لما اصابھم فی سبیل اللہ وما ضعفوا وما استکانوا) یعنی ان کے دل کمزور ہوئے نہ ان کے بدن، اور نہ انہوں نے عاجزی اور فردتنی ظاہر کی۔ یعنی وہ دشمن کے سامنے جھکے نہیں۔ بلکہ انہوں نے صبر کیا اور ثابت قدم رہے اور اپنا حوصلہ بڑھاتے رہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (واللہ یحب الصبرین) ” اللہ صبر کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ “ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کی اس دعا کا ذکر فرمایا جس میں انہوں نے اپنے رب سے فتح و نصرت طلب کی ہے۔ (وما کان قولھم) یعنی ان انتہائی مشکل پر ان کا یہی قول تھا۔ (الا ان قالوا ربنا اغفرلنا ذنوبنا واسرافعنا فی امرنا) ” اے ہمارے رب ہمارے گناہ اور وہ زیادتیاں جو ہمارے معاملے میں ہم سے سر زد ہوئی ہیں بخش دے۔ “ اسراف سے مراد حد سے تجاوز کر کے حرام امور میں داخل ہونا ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ گناہ اور اسراف اللہ تعالیٰ کی نصرت اور توفیق کے اٹھ جانے کا سب سے بڑا سبب ہے اور گناہ اور اسراف کو چھوڑ دینا اللہ تعالیٰ کی نصرت کے حصول کا سبب ہے۔ اس لئے انہوں نے اپنے گناہوں کی بخشش کا سوال کیا۔ پھر انہوں نے محض اپنی جدوجہد اور اپنے صبر ہی پر بھروسہ نہیں کیا بلکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ پر اعتماد کیا اور انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ دشمن سے مقابلہ ونے کے وقت انہیں ثابت قدمی سے نوازے اور دشمن کے مقابلے میں فتح و نصرت عطا کرے۔ پس اہل ایمان نے صبر کرنے، صبر کے متضاد امور کو ترک کرنے، توبہ، استغفار اور اللہ تعالیٰ سے فتح و نصرت کی دعا کو ایک جگہ جمع کردیا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو فتح و نصرت سے نوازا اور دنیا و آخرت میں ان کا اچھا انجام کیا اس لئے فرمایا : (فاتھم اللہ ثواب الدنیا) ” پس دیا ان کو اللہ نے دنیا کا ثواب “ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کو دنیا میں فتح و ظفر سے نوازا اور مال غنیمت عطا کیا (وحسن ثواب الاخرۃ) ” اور خوب آخرت کا ثواب “ یعنی اپنے رب کی رضا کے حصول میں کامیابی، ہمیشہ رہنے والی نعمتوں کا عطا ہونا جو ہر قسم کے تکدر سے محفوظ ہوں گی۔ اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ انہوں نے اللہ تبارک و تعالیٰ کی رضا کے لئے بہترین اعمال سر انجام دیئے پس اللہ تعالیٰ نے بھی ان کو بہترین جزا سے نوازا۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (واللہ یحب المحسنین) یعنی خلاق کی عبادت اور مخلوق کے ساتھ معاملہ میں احسان کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے۔ دشمن کے ساتھ جہاد کے وقت، ان مومنین کا سا کردار اختیار کرنا بھی احسان ہے۔
Top