Tafseer-e-Mazhari - Aal-i-Imraan : 148
فَاٰتٰىهُمُ اللّٰهُ ثَوَابَ الدُّنْیَا وَ حُسْنَ ثَوَابِ الْاٰخِرَةِ١ؕ وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ۠   ۧ
فَاٰتٰىھُمُ : تو انہیں دیا اللّٰهُ : اللہ ثَوَابَ : انعام الدُّنْيَا : دنیا وَحُسْنَ : اور اچھا ثَوَابِ الْاٰخِرَةِ : انعام آخرت وَاللّٰهُ : اور اللہ يُحِبُّ : دوست رکھتا ہے الْمُحْسِنِيْنَ : احسان کرنے والے
تو خدا نے ان کو دنیا میں بھی بدلہ دیا اور آخرت میں بھی بہت اچھا بدلہ (دے گا) اور خدا نیکو کاروں کو دوست رکھتا ہے
فاتٰھم اللہ اس قول کی برکت سے اللہ نے ان کو عطا فرمایا۔ ثواب الدنیا دنیاوی ثواب یعنی فتح، مال غنیمت، ملک اور نیک نامی (وغیرہ) و حسن ثواب الاخرۃ اور ثواب آخرت کا حسن یعنی جنت مرتبہ قرب اور اپنی خوشنودی اور رب کی ادنیٰ خوشنودی ہی سب سے بڑھ کر ہے۔ حسن ثواب معمولی ثواب سے افضل ہے اور واجب القصد بھی اس لیے ثواب آخرت کے ساتھ حسن کا ذکر کیا۔ وا اللہ یحب المحسنین اور اللہ اہل احسان کو پسند فرماتا ہے۔ یُحِبُّہُمْ نہیں فرمایا بلکہ ضمیر کی جگہ اسم ظاہر کو ذکر کیا تاکہ اس امر کی صراحت ہوجائے کہ مذکورہ مقولہ کے قائل ہی اہل احسان ہیں کیونکہ احسان کا معنی ہے اللہ کو حاضر ناظرسمجھتے ہوئے عبادت کرنا یعنی ہر طرح کی غفلت دور کرکے دل کو حاضر رکھنا پس احسان کا تقاضا ہے کہ مقولۂ مذکورہ زبان سے کہا جائے اور یہ یقین رکھا جائے کہ راحت و رنج اور دکھ سکھ سب اللہ کی طرف سے آتا ہے مگر اللہ کریم ہے اس لیے انسان جب تک اپنی اطاعت میں کوئی قصور نہ کرے اللہ کی طرف سے نعمت نہیں بدلی جاتی جب اطاعت میں کمی آتی ہے تو اللہ اپنی نعمت بدل دیتا ہے اور نعمت کی جگہ کچھ تکلیف بھیج دیتا ہے۔ تاکہ انسان بیدار ہو کر معافی کا طلبگار ہو اور دنیوی سزا بھگت کر پاک صاف ہوجائے۔
Top