Tafseer-e-Saadi - Aal-i-Imraan : 113
لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ١ۚ وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰهِ فِیْ شَیْءٍ اِلَّاۤ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْهُمْ تُقٰىةً١ؕ وَ یُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهٗ١ؕ وَ اِلَى اللّٰهِ الْمَصِیْرُ
لَا يَتَّخِذِ :نہ بنائیں الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع) الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع) اَوْلِيَآءَ : دوست (جمع) مِنْ دُوْنِ : علاوہ (چھوڑ کر) الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) وَمَنْ : اور جو يَّفْعَلْ : کرے ذٰلِكَ : ایسا فَلَيْسَ : تو نہیں مِنَ : سے اللّٰهِ : اللہ فِيْ شَيْءٍ : کوئی تعلق اِلَّآ : سوائے اَنْ : کہ تَتَّقُوْا : بچاؤ کرو مِنْھُمْ : ان سے تُقٰىةً : بچاؤ وَيُحَذِّرُكُمُ : اور ڈراتا ہے تمہیں اللّٰهُ : اللہ نَفْسَهٗ : اپنی ذات وَاِلَى : اور طرف اللّٰهِ : اللہ الْمَصِيْرُ : لوٹ جانا
مومنوں کو چاہئے کہ مومنوں کے سوا کافروں کو دوست نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا اس سے خدا کا کچھ (عہد) نہیں ہاں اگر اس طریق سے تم ان (کے شر) سے بچاؤ کی صورت پیدا کرو تو مضائقہ نہیں اور خدا تم کو اپنے (غضب) سے ڈراتا ہے اور خدا ہی کی طرف (تم کو) لوٹ کر جانا ہے
آیت 28-30 اللہ تعالیٰ مومنوں کو کافروں سے دوستی لگانے سے منع فرماتا ہے کہ ان سے محبت نہ رکھیں، ان کی مدد نہ کریں، مسلمانوں کے کسی کام میں ان سے مدد نہ لیں اور جو کوئی ایسی حرکت کرے اسے تنبیہ فرماتا ہے کہ (ومن یفعل ذلک فلیس من اللہ فی شیء ) ” جو ایسا کرے گا، اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں “ یعنی وہ اللہ سے کٹ گیا ہے، اس کا اللہ کے دین میں کوئی حصہ نہیں۔ کیونکہ کافروں سے دوستی اور ایمان جمع نہیں ہوسکتے۔ ایمان تو اللہ سے محبت اور اس کے دوستوں یعنی مومنوں سے تعاون کر کے اللہ کے دین کو قائم کرنے اور اس کے دشمنوں سے جنگ کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (والمومنون والمومنت بعضھم اولیآء بعض) (التوبہ :81/9) ” مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے ولی (مددگار، محبت رکھنے والے) ہیں۔ “ جو شخص مومنوں کو چھوڑ کر ان کافروں سے دوستی لگاتا ہے جو اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں اور اس کے اولیاء کو فتنہ میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں، ایسا شخص مومنوں کی جماعت سے نکل جاتا ہے اور کافروں کی جماعت میں داخل ہوجاتا ہے۔ اللہ نے فرمایا : (ومن یتولھم منکم فانہ منھم) (المائدہ :51/5) ” تم میں سے جو کوئی ان سے محبت رکھے گا، وہ انہی میں سے ہوگا “ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ کافروں کے ساتھ میل جول رکھنے سے، ان سے دوستی لگانے سے ان کی طرف میلان رکھنے سے بچنا ضروی ہے اور یہ بھی ثابت وہا کہ کسی کافر کو مسلمانوں کی حکومت کا کوئی عہدہ نہیں دیا جاسکتا۔ عام مسلمانوں کے فائدے کے کسی کام میں ان سے مدد نہیں لی جاسکتی۔ (الا ان تتقوامنھم ثقۃ) ” مگر یہ کہ ان کے شر سے کسی طرح کا بچاؤ مقصود ہو۔ “ یعنی اگر تمہیں ان سے جان کا خطرہ ہو تو اپنی جان بچانے کے لئے زبان سے تقہیہ کرسکتے ہو، اور ظاہری طور پر ایسا کام کرسکتے ہو جس سے تقیہ ہوجاتا ہے۔ (1) (ویحذرکم اللہ نفسہ) ” اللہ تعالیٰ تمہیں خود اپنی ذات سے ڈرا رہا ہے۔ “ لہٰذا اس کی نارفمانی کر کے اس کی ناراضی مول نہ لو۔ ورنہ وہ تمہیں اس کی سزا دے گا۔ (والی اللہ المصیر) ” اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ “ یعنی قیامت کے دن سب بندے اس کے سامنے حاضر ہوں گے۔ پھر وہ تمہارے اعمال کو شمار کرے گا، ان پر محاسبہ کرے گا اور سزا و جزا دے گا۔ لہٰذا ایسے برے کام کرنے سے بچو جن کی وجہ سے تم عقوبت کے مستحق ہوجاؤ۔ بلکہ ایسے عمل کرو جن سے تمہیں اجر وثواب ملے۔ پھر اللہ نے اپنے علم کی وسعت کے بارے میں فرمایا، وہ زمین و آسمان کی تمام چیزوں کا علم رکھتا ہے، بالخصوص جو کچھ دلوں میں ہے اسے بھی جانتا ہے۔ اس کی قدرت بھی کامل ہے۔ اس میں اشارہ ہے کہ دلوں کو پاک رکھنا چاہیے اور ہر وقت اللہ کے علم کو ذہن میں رکھنا چاہیے۔ اس کے نتیجے میں بندے کو اس بات سے شرم آئے گی۔ 1۔ تحقیق شدہ نسخہ کے حاشیہ میں لکھا ہے۔ امام ابن تیمیہ نے (المنھاج “ میں فرمایا ہے : اللہ کا یہ فرمان : (الا ان تتقوا منھم تقۃ) اس کے بارے میں حضرت مجاہد نے فرمایا ہے : (لامصائعۃ) ” ان کا ساتھ نہ دو “۔ تقیہ یہ نہیں ہوتا کہ میں جھوٹ بولوں، اور زبان سے وہ بات کہوں جو میرے دل میں نہیں، یہ تو منافقت ہے۔ بلکہ مجھے چاہے کہ نبی ﷺ کے ارشاد کے مطابق جو کچھ کرسکوں کروں۔ ارشاد نبوی ہے ” تم میں سے جو کوئی برائی دیکھے، تو اسے ہاتھ سے تبدیل (اور ختم) کر دے اور اگر یہ طاقت نہ ہو، تو زبان سے (منع کرے) ۔ اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل سے (نفرت رکھے ) ۔ “ لہٰذا مومن جب کافروں اور بدکاروں میں گھر جائے تو کمزور ہونے کی وجہ سے اس پر ہاتھ سے جہاد کرنا فرض نہیں۔ اگر زبان سے منع کرسکے تو ضرور کرے ورنہ دل سے نفرت رکھے۔ ان تمام درجات میں وہ جھوٹ نہیں بولے گا۔ زبان سے وہ بات نہیں کہے گا، جو اس کے دل میں نہیں۔ وہ یا تو اپا دین ظاہر کرے گا، یا چھپائے گا۔ لیکن کسی بھی حال میں ان کے مذبہ کی تائید نہیں کرے گا۔ زیادہ سے زیادہ ومن آل فرعون کا، یا زوجہ فرعون کا ساطرز عمل اختیار کرسکتا ہے۔ وہ مومن ان کے دین کی تائید نہیں کرتا تھا، نہ جھوٹ بولتا تھا، نہ زبان سے وہ بات کہتا تھا جو اس کے دل میں نہیں، بلکہ اپنے دین کو چھپائے ہوئے تھا۔ دین کو چھپانا اور چیز ہے اور باطل دین کا اظہار بالکل دوسری چیز ہے۔ اللہ نے اس چیز کی بالکل اجازت نہیں دی۔ صرف اسے اجازت دی ہے جسے کلمہ کفر کہنے پر زبردستی مجبور کردیا جائے۔۔۔ “ الخ۔ (از محقق) کہ اس کا مالک اس کے دل کو گندے خیالات کی آماجگاہ بنا ہوا دیکھے۔ بلکہ وہ اپنی سوچ کو ایسے امور میں مشغول کرے گا جن سے اللہ کا قرب حاصل ہو۔ مثلاً قرآن مجید کی کسی آیت یا رسول اللہ ﷺ کی کسی حدیث پر غور و فکر، یا ایسے علم کو سمجھنے کی کوشش جس سے اسے فائدہ ہو، یا اللہ کی کسی مخلوق اور نعمت کے بارے میں سوچنا، یا اللہ کے بندوں کی بھلائی کے کسی کام کے بارے میں سوچ بچار۔ جب اللہ تعالیٰ اپنے علم اور قدرت کا ذکر فرماتا ہے، تو اس میں ضمناً اعمال کی جزا و سزا بھی شامل ہوتی ہے۔ جو قیامت کے دن واقع ہوگی۔ اس دن ہر شخص کو اس کے اعمال کی پوری جزا و سزا ملے گی۔ اس لئے فرمایا : (یوم تجد کل نفس ماعملت من خیر محضراً ” جس دن ہر شخص اپنی کی ہوئی نیکیوں کو موجود پائے گا “ یعنی اس کی نیکیاں مکمل طور پر محفوظ ہوں گی۔ اس دن ہر شخص کو اس کے اعمال کی پوری جزا اور سزا ملے گی۔ اس لئے فرمایا : (یوم تجد کل نفس ما عملت من خیر محضراً ) ” جس دن ہر شخص اپنی کی ہوئی نیکیوں کو موجو دپائے گا “ یعنی اس کی نیکیاں مکمل طور پر محفوظ ہوں گی۔ ان میں ذرہ برابر بھی کمی نہ آئے گی۔ جیسے ارشاد ہے : (فمن یعمل مثقال ذرۃ خیرایرہ) (الزلزال :8/99) ” پس جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی، وہ اسے دیکھ لے گا “ (خیر) ایک جامع لفظ ہے جس میں اللہ کے قریب کرنے والا ہر نیک عمل شامل ہے۔ خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا۔ جس طرح (سوء) ایک جامع لفظ ہے جس میں اللہ کو ناراض کرنے والا ہر چھوٹ بڑا برا عمل شامل ہے۔ (وما عملت من شوء تو دلو ان بینھا وبینہ امدا بعیدا) ” اور جو اس نے برائیاں کی ہوں گی، آرزو کرے گا، کاش اس کے اور ان (برائیوں) کے درمیان بہت ہی دوری ہوتی “ وہ بےانتہا افسوس اور شدید ترین غم کی وجہ سے یہ آرزو کرے گا۔ بندے کو ان گناہوں سے بچنا اور ڈرنا چاہیے جن کے نتیجے میں اسے شدید ترین غم برداشت کرنا پڑے گا۔ اب ان گناہوں کو چھوڑنا ناممکن ہے، اس لئے فوراً ترک کردینا چاہیے ورنہ اس وقت وہ کہے گا (یحسرتی علی مافرطت فی جنب اللہ) (الزمر :56/39) ” ہائے افسوس ! میں نے اللہ کی جناب میں کوتاہی پڑے گا۔ اب ان گناہوں کو چھوڑنا ممکن ہے، اس لئے فوراً ترک کردینا چاہیے ورنہ اس وقت وہ کہے گا (یحسرتی علی مافرطت فی جنب اللہ) (الزمر :56/39) ” ہائے افسوس ! میں نے اللہ کی جناب میں کوتاہی کی ! “ (یومئذ یود الذین کفروا وعصوا الرسول لوتسوی بھم الارض) (النساء :72/3) ” جنہوں نے کفر کیا اور رسول کی نافرمانی کی اس دن تمنا کریں گے کاش ! زمین ان کو نگل کر برابر ہوجائے “ (ویوم یعض الظالم علی یدیہ یقول یلیتنی اتخذت مع الرسول سبیلاً ، یویلتی لیتنی لم اتخذ فلانا خلیلاً (الفرقان :28-28-25) ” اس دن ظالم اپنے ہاتھوں کو چبا چبا کر کہے گا، کاش ! میں نے رسول ﷺ کی راہ اختیار کی ہوتی ! ہائے افسوس ! کاش میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا۔ “ (حتی اذا جآء نا قال یلیت بینی وبینک بعد المشرقین فبئس القرین) (الزخرف :38/32) ” یہاں تک کہ جب وہ ہمارے پاس آئے گا تو کہے گا، کاش میرے اور تیرے درمیان مشرق اور مغرب کی دوری ہوتی، تو تو بڑا برا ساتھی ہے۔ “ قسم ہے اللہ کی ! ہر خواہش نفس کو اور لذت کو ترک کردینا۔ اگرچہ اس جہان میں سے ترک کرنا نفس کو کتنا دشوار محسوس ہوتا ہے۔ ان عذابوں کو جھیلنے سے اور ان رسوائیوں کو برداشت کرنے سے بہت زیادہ آسان ہے۔ لیکن بندہ ظالم اور نادان ہونے کی وجہ سے صرف حاضرو موجود پر نظر رکھتا ہے۔ اگر اس کے پاس کامل عقل ہو تو ان اعمال کے انجام کو دیکھے، پھر وہ عمل کرے جس کا دونوں جہان میں فائدہ ہو۔ اور اس کام سے اجتناب کرے جو دونوں جہان میں نقصان کا باعث ہو۔ اس کے بعد اللہ نے ہم پر شفقت و رحمت کرتے ہوئے دوبارہ اپنی ذات سے ڈرایا ہے تاکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے دل سخت نہ ہوجائیں۔ تاکہ ترغیب بھی ہو، جس کے نتیجے میں امید اور عمل صالح حاصل ہو۔ اور ترہیب بھی ہو جس کے نتیجے میں خوف حاصل ہو اور گناہ چھوٹ جائیں۔ چناچہ فرمایا : (ویحذرکم اللہ نفسہ واللہ رء وف بالعباد) ” اللہ تمہیں اپنی ذات سے ڈرا رہا ہے اور اللہ اپنے بندوں پر بڑا ہی مہربان ہے “ ہم اس سے دعا کرتے ہیں کہ ہم پر احسان فرما کر ہمیشہ اپنے خوف سے نوازے رکھے، تاکہ ہم وہ کام نہ کریں جن سے وہ نارضا ہوتا ہے۔
Top