Tafseer-e-Saadi - Al-Ahzaab : 59
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَ بَنٰتِكَ وَ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّ١ؕ ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی قُلْ : فرمادیں لِّاَزْوَاجِكَ : اپنی بیبیوں کو وَبَنٰتِكَ : اور بیٹیوں کو وَنِسَآءِ : اور عورتوں کو الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں يُدْنِيْنَ : ڈال لیا کریں عَلَيْهِنَّ : اپنے اوپر مِنْ : سے جَلَابِيْبِهِنَّ ۭ : اپنی چادریں ذٰلِكَ : یہ اَدْنٰٓى : قریب تر اَنْ : کہ يُّعْرَفْنَ : ان کی پہچان ہوجائے فَلَا يُؤْذَيْنَ ۭ : تو انہیں نہ ستایا جائے وَكَانَ اللّٰهُ : اور اللہ ہے غَفُوْرًا : بخشنے والا رَّحِيْمًا : مہربان
اے پیغمبر ﷺ اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ (باہر نکلا کریں تو) اپنے (مونہوں) پر چادر لٹکا کر (گھونگھٹ نکال) لیا کریں یہ امر ان کے لئے موجب شناخت (وامتیاز) ہوگا تو کوئی انکو ایذا نہ دے گا اور خدا بخشنے والا مہربان ہے
آیت 59 اس آیت کریمہ کو ” آیت حجاب “ سے موسوم کیا گیا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو حکم دیا کہ وہ تمام عورتوں کو عمومی طور پر پردے کا حکم دیں اور اس کی ابتدا اپنی ازواج مطہرات اور اپنی بیٹیوں سے کریں کیونکہ دوسروں کی نسبت، ان کے لئے یہ حکم زیادہ مؤکد ہے، نیز کسی معاملے میں دوسروں کو حکم دینے والے کے لئے مناسب یہی ہے کہ وہ اپنے گھر سے ابتدا کرے جیسا کہ فرمایا : (یاھا الذین امنوا قوآ انفسکم واھلیکم ناراً (التحریم :6/66) ” اے مومنو ! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کی آگ سے بچاؤ۔ “ (اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ (یدنین علیھن من جلا بیبھن) ” وہ اپنی چادریں اوڑھ کر گھونگٹ نکال لیا کریں۔ “ (جلباب) وہ کپڑا ہے جو عام لباس کے اوپر اوڑھ لیا جاتا ہے مثلاً دوپٹا، اوڑھنی اور چادر وغیرہ، یعنی چادر وغیرہ سے اپنے چہروں اور سینوں کو ڈھانپ لیا کریں، پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا : (ذلک ادنی ان یعرفن فلا یوذین) ” یہ امر ان کے لئے موجب شناخت ہوگا تو کوئی ان کو ایذا نہیں دے گا۔ “ آیت کریمہ کا یہ جملہ عدم حجاب کی صورت میں وجود اذیت پر دلالت کرتا ہے کیونکہ اگر وہ پردہ نہیں کریں گی تو بسا اوقات ان کے بارے میں کوئی شخص اس وہم میں مبتلا ہوسکتا ہے کہ یہ پاک باز عورتیں نہیں ہیں اور کوئی بدکردار شخص، جس کے دل میں مرض ہے، آگے بڑھ کر تعرض کر کے ان کو تکلیف پہنچا سکتا ہے۔ ان کی اہانت بھی ہوسکتی ہے۔ شرارت پسند شخص ان کو لونڈیاں سمجھتے ہوئے ان کے ساتھ برا سلوک کرسکتا ہے، اس لئے حجاب بدطینت لوگوں کی لالچ بھیر نظروں سے بچاتا ہے۔ (وکان اللہ غفوراً رحیماً ) ” اور اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔ “ اس نے تمہارے گزشتہ گناہ بخش دیئے اور تم پر رحم فرمایا کہ اس نے تمہارے لئے احکام بیان فرمائے، حلال اور حرام کو واضح کیا۔ یہ عورتوں کی جہت سے برائی کا سدباب ہے۔ رہا شریر لوگوں کے شرکا سدباب، تو اللہ تعالیٰ نے ان کو وعید سناتے ہوئے فرمایا : (لئن لم ینتہ المنفقون والذین فی قلوبھم مرض) ” اگر باز نہ آئیں وہ لوگ جو منافق ہیں اور جن کے دلوں میں مرض ہے “ یعنی شک اور شہوت کا مرض (والمرجفون فی المدینۃ) ” اور جو مدینے میں جھوٹی خبریں اڑایا کرتے ہیں۔ “ یعنی وہ لوگ جو اپنے دشمنوں کو ڈراتے، اپنی کثرت و قوت اور مسلمانوں کی کمزوری کا ذکر کرتے پھرتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس عمل کا ذکر نہیں فرمایا جس کے بارے میں ان کو تنبیہ کی گئی ہے کہ وہ اس سے باز آجائیں تاکہ یہ اپنے عموم کے ساتھ ان تمام برائیوں سے رک جائیں جن پر انہیں ان کے نفس اکساتے، وسوسہ پیدا کرتے اور شرک کی طرف انہیں دعوت دیتے رہتے ہیں، مثلاً : اسلام اور اہل اسلام پر سب و شتم کرنا، مسلمانوں کے بارے میں بری افواہیں پھیلانا، ان کی قوتوں کو کمزور کرنے کی کوشش کرنا، مومن خواتین کے ساتھ برائی اور فحش رویے سے پیش آنا اور دیگر گناہ جو ان جیسے بدکردار لوگوں سے صادر ہوتے ہیں۔ (لنغرینک بھم) ہم آپ کو انہیں سزا دینے اور ان کے خلاف لڑنے کا حکم دیں گے اور آپ کو ان پر تسلط اور غلبہ عطا کریں گے۔ اگر ہم نے یہ کام کیا تو ان میں آپ کا مقابلہ کرنے اور آپ سے بچنے کی قوت اور طاقت نہ ہوگی۔ اس لئے فرمایا : (ثم لا یج اور ونک فیھا الا قلیلاً ) یعنی وہ مدینہ منورہ میں بہت کم آپ کے ساتھ رہ سکیں گے، آپ ان کو قتل کردیں گے یا شہر بدر کردیں گے۔ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ ان شرپسندوں کو، جن کے مسلمانوں کے اندر قیام سے مسلمانوں کو ضرر کا اندیشہ ہو، شہر بدر کیا جاسکتا ہے، اس طریقے سے بہتر طور پر برائی کا سدباب ہوسکتا ہے اور برائی سے دور رہا جاسکتا ہے۔ (ملغونین اینما ثقفوا اخذوا وقتلوا تقتیلاً ” ان پر پھٹکار برسائی گئی ہے، جہاں بھی وہ مل جائیں پکڑے جائیں اور ان کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے جائیں۔ “ یعنی جہاں کہیں بھی پائے جائیں گے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور ہوں گے انہیں امن حاصل ہوگا نہ قرار، انہیں ہمیشہ قتل، قید اور عقوبتوں کا دھڑکا لگا رہے گا۔ (سنۃ اللہ فی الذین خلوا من قبل) ” جو لوگ پہلے گزر چکے ہیں ان کے بارے میں بھی اللہ کی یہی سنت رہی ہے۔ “ یعنی جو نافرمانی میں بڑھتا چلا جاتا ہے، ایذا رسانی کی جسارت کرتا ہے اور اس سے باز نہیں آتا، اسے سخت سزا دی جاتی ہے (ولن تجد لسنۃ اللہ تبدیلاً ) ” اور البتہ آپ اللہ کی سنت میں کوئی تغیر و تبدل نہیں پائیں گے۔ “ بلکہ اللہ تعالیٰ کی سنت کو اسباب اور اس کے مسببات کے ساتھ جاری وساری پائیں گے۔
Top