Tafseer-e-Saadi - Az-Zumar : 61
وَ یُنَجِّی اللّٰهُ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا بِمَفَازَتِهِمْ١٘ لَا یَمَسُّهُمُ السُّوْٓءُ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ
وَيُنَجِّي : اور نجات دے گا اللّٰهُ : اللہ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا : وہ جنہوں نے پرہیزگاری کی بِمَفَازَتِهِمْ ۡ : ان کی کامیابی کے ساتھ لَا يَمَسُّهُمُ : نہ چھوئے گی انہیں السُّوْٓءُ : برائی وَلَا هُمْ : اور نہ وہ يَحْزَنُوْنَ : غمگین ہوں گے
اور جو پرہیزگار ہیں انکی (سعادت اور) کامیابی کے سبب خدا انکو نجات دے گا نہ تو ان کو کوئی سختی پہنچے گی اور نہ وہ غمناک ہوں گے
آیت 61 جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے بارے میں افترا پردازی کی، اللہ تعالیٰ ان کی رسوائی بیان کرتا ہے کہ قیامت کے روز ان کے چہرے سیاہ تاریک رات کے مانند سیاہ ہوں گے ان کے سیاہ چہروں سے اہل موقف انہیں پہچانیں گے اور روشن صبح کی مانند حق صاف واضح ہوگا۔ جس طرح انہوں نے دنیا کے اندر حق کے چہرے کو جھوٹ کے ساتھ سیاہ کردیا تھا، اللہ تعالیٰ نے ان کے چہروں کو بھی سیاہ کردیا۔ یہ سزا ان کے عمل کی جنس ہی سے ہے۔ ان کے چہرے سیاہ ہوں گے اور ان کے لئے جہنم کا نہایت سخت عذاب ہوگا، اس لئے فرمایا : (الیس فی جھنم مثوی للمتکبرین) کیا جو لوگ حق اور اپنے رب کی عبادت کے بارے میں تکبر کا رویہ رکھتے تھے اور اس پر بہتان طرازی کرتے تھے ان کا ٹھکانا دوزخ میں نہیں ہے۔ اللہ کی قسم ! بلاشبہ جہنم میں شدید عذاب، بےانتہا رسوائی اور اللہ تعالیٰ کی سخت ناراضی ہوگی۔ جہاں متکبیرن کو پوری طرح عذاب دیا جائے گا اور ان سے حق وصول کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرانا، اس کا بیٹا اور بوی قرار دینا، اس کی طرف سے کوئی ایسی خبر دینا جو اس کے جلال کے لائق نہ ہو، نبوت کا دعویٰ کرنا اس کی شریعت میں ایسی بات کہنا جو اس نے نہ کہی ہو اور دعویٰ کرنا کہ اسے اللہ تعالیٰ نے مشروع کیا ہے، یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ کے زمرے میں آتا ہے۔ متکبرین کا حال بیان کرن کے بعد اللہ تعالیٰ نے اہل تقویٰ کا حال بیان کیا ہے چناچہ فرمایا : (آیت) ” اور جو پرہیز گار ہیں ان کی کامیابی کے سبب اللہ ان کو نجات دے گا۔ “ کیونکہ ان کے پاس آلہ نجات، یعنی تقویٰ ہوگا جو ہر شدت اور ہولناکی کے وقت بچاؤ کا ذریعہ ہے۔ (لایمسھم السوآء) یعنی تکلیف دہ عذاب انہیں چھوئے گا نہیں۔ (ولاھم یحزنون) ” اور وہ غمگین نہیں ہوں گے۔ “ پس اللہ تعالیٰ نے ان سے عذاب اور خوف کی نفی کردی اور یہ امن کی انتہا ہے۔ ان کے لئے مکمل امن ہوگا اور یہ امن ان کے ساتھ رہے گا یہاں تک کہ وہ سلامتی کے گھر، یعنی جنت میں داخل ہوجائیں گے تب وہ ہر تکلیف اور ہر برائی سے محفوظ و مامون ہوں گے اور ان پر نعمتوں کی تازگی چھا جائے گی اور وہ پکار اٹھیں گے۔ (آیت) ” ہر قسم کی تعریف ہے اس ذات کے لئے جس نے ہم سے حزن و غم کو دور کیا بلا شبہ ہمارا رب بخشنے والا، قدر دان ہے۔ “
Top