Tafseer-e-Saadi - Al-Hashr : 4
ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ شَآقُّوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ١ۚ وَ مَنْ یُّشَآقِّ اللّٰهَ فَاِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ
ذٰلِكَ : یہ بِاَنَّهُمْ : اس لئے کہ وہ شَآقُّوا اللّٰهَ : انہوں نے مخالفت کی اللہ کی وَرَسُوْلَهٗ ۚ : اور اسکے رسول کی وَمَنْ : اور جو يُّشَآقِّ : مخالفت کرے اللّٰهَ : اللہ کی فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ شَدِيْدُ : سخت الْعِقَابِ : سزا دینے والا
یہ اس لئے کہ انہوں نے خدا اور اس کے رسول کی مخالفت کی۔ اور جو شخص خدا کی مخالفت کرے تو خدا سخت عذاب دینے والا ہے۔
(ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ شَاۗقُّوا اللّٰهَ ) اس کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالف کی ان کے ساتھدشمنی کی، ان کے خلاف جنگ کی اور ان کی نافرمانی میں بھاگ دوڑ کی ان کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے یہ ان لوگوں کے بارے میں عادت اور سنت الٰہی ہے جو اللہ کی مخالفت کرتے ہیں۔ وَمَنْ يُّشَاۗقِّ اللّٰهَ فَاِنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ ) اور جو کوئی اللہ کی مخالفت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والا ہے۔ جب بنونضیر نے رسول اللہ اور مسلمانوں کو کھجوروں کے درخت اور دیگر درخت کاٹنے پر ملامت کی اور اس زعم کا اظہار کیا کہ یہ فساد ہے اور اس بنا پر انہوں نے مسلمانوں کو نشانہ طعن بنایا، تب اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ اگر مسلمانوں نے کھجور کے درخت کاٹے ہیں تو ان کو کاٹنا اور اگر ان کو باقی رکھا جائے تو ان کو باقی رکھنا۔ (فباذن اللہ) یہ اللہ کے اذن اور حکم سے ہے ( وَلِيُخْزِيَ الْفٰسِقِيْنَ ) اور تاکہ وہ فاسقوں کو رسوا کرے۔ کیونکہ اسی نے ان کے کھجوروں کے باغات کاٹنے اور جلانے کا تمہیں اختیار دیا تاکہ یہ سب کچھ ان کے لیے سزا اور دنیا کے اندر ان کی ذلت اور رسوائی کا باعث ہو جس سے ان کی پوری بےبسی ظاہر ہو جس کی وجہ سے وہ کھجوروں کے باغات بھی نہ بچا سکے جو ان کی قوت اور طاقت کا سبب تھے۔ (اللینہ) صحیح اور راجح ترین احتمال کے مطابق ہر قسم کے کھجور کے درختوں کو شامل ہے۔
Top