Tafseer-e-Madani - Al-Qalam : 44
فَذَرْنِیْ وَ مَنْ یُّكَذِّبُ بِهٰذَا الْحَدِیْثِ١ؕ سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِّنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُوْنَۙ
فَذَرْنِيْ : پس چھوڑدو مجھ کو وَمَنْ يُّكَذِّبُ : اور جو کوئی جھٹلاتا ہے بِهٰذَا : اس الْحَدِيْثِ : بات کو سَنَسْتَدْرِجُهُمْ : عنقریب ہم آہستہ آہستہ کھینچیں گے ان کو مِّنْ حَيْثُ : جہاں سے لَا يَعْلَمُوْنَ : وہ جانتے نہ ہوں گے
پس چھوڑ دو تم مجھے اور ان لوگوں کو جو جھٹلاتے ہیں اس کلام (برحق) کو ہم ان کو آہستہ آہستہ (اور کشاں کشاں) لئے جا رہے ہیں (ان کی ہلاکت اور آخری انجام کی طرف) اس طرح کہ ان کو خبر بھی نہیں
37 منکرین کیلئے تہدید و وعید اور پیغمبر (علیہ السلام) کیلئے تسلیہ و تسکین : سو ارشاد فرمایا گیا اور پیغمبر کو خطاب کرکے ارشاد فرمایا گیا کہ چھوڑ دو ان لوگوں کو اور میرے حوالے کردو ان کا معاملہ میرے حوالے کردو اور ان لوگوں کو جو جھٹلاتے ہیں اس کلام حق ترجمان کو۔ اور ان کی فکر مت کرو ‘ ان سب سے میں خود ٹھیک ٹھیک اور نہایت مناسب طریقے سے اور صحیح وقت پر پوری طرح نبٹ لوں گا ‘ اور میں ہی جانتا ہوں کہ کس کا جرم کتنا ہے اور کون کتنی اور کس طرح کی سزا کا مستحق ہے ‘ اور کس کو کتنی ڈھیل دی جائے ‘ وغیرہ سو اس ارشاد میں ایک طرف تو ان منکرین و مکذبین کیلئے سخت دھمکی ہے اور دوسری طرف اس میں پیغمبر ﷺ کیلئے بہت تسلی بھی ہے کہ ان مکذبین قرآن کا معاملہ اب مجھ پر چھوڑ دو ‘ کہ آپ ﷺ پر اے پیغمبر تبلیغ حق کی جو ذمہ داری تھی وہ آپ ﷺ نے پوری کردی ‘ اور آپ ﷺ کا ذمہ اب فارغ ہوگیا ‘ اب آپ ﷺ بیچ سے ہٹ جائیں اور مجھے تنہا ان سے نمٹ لینے دیں ‘ میں ان کو آہستہ آہستہ اور درجہ بدرجہ وہاں سے ہلاکت کے کھڈے میں لے جاؤں گا جہاں ان کو خبر بھی نہ ہوگی۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر حال میں اپنی حفاظت اور پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔ 38 منکرین استدراج خداوندی کی زد میں۔ والعیاذ باللہ : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ یہ لوگ استدراج کی زد میں ہیں۔ یعنی یہ کہ اپنے حلم بےپایاں اور رحمت بیکراں کی بناء پر ہم ان کو ان کے کفر و سرکشی کے باوجود جو مہلت پر مہلت دیئے جارہے ہیں ‘ ان کو مال و دولت سے جو نؤازے جا رہے ہیں ‘ اس سے یہ لوگ اپنی اس غلط فہمی میں اور پکے اور پختہ ہوتے جا رہے ہیں ‘ کہ ہم لوگ ٹھیک ہیں ‘ ورنہ ہمیں یہ سب کچھ کیوں ملتا ‘ اور وہ نہیں سمجھ رہے کہ یہ سب کچھ استدراج ہے اور آخری اور بڑے عذاب کا پیش خیمہ ‘ والعیاذ باللہ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا گیا ایحسبون انما نمدھم بہ من مال و بنین ٭ نسارع لھم فی الخیرات بل لا یشعرون٭ (المومنون 55 ۔ 56) نیز دوسری جگہ فرمایا گیا انما نملی لھم لیزدادوا اثما ولھم عذاب مھین (آل عمران۔ 178) سو کفر و انکار اور معاصی وذنوب کے باوجود اللہ پاک کی نعمتوں کا ملتے رہنا ‘ اور بڑھتے جانا ‘ انعام نہیں امہال و استدراج ہے ‘ جس کا نتیجہ و انجام بڑا ہی برا اور نہایت ہی بھیانک ہے ‘ والعیاذ باللہ ‘ اسی لئے کہا جاتا ہے کم من مستدرج بالاحسان الیہ و کم من مفتون بالثناء علیہ و کم من مغرور بالستر علیہ یعنی کتنے ہی ایسے ہیں جن کا احسان کے ذریعے استدراج ہو رہا ہوتا ہے اور کتنے ہی ایسے ہیں جو تعریف و توصیف کی بناء پر فتنے میں مبتلا ہوتے ہیں ‘ اور کتنے ہی ایسے ہیں جو پردہ پوشی کے باعث دھوکے میں پڑے ہیں ‘ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو مال و دولت وغیرہ کی جس کثرت وبہتات کو یہ لوگ اپنی کامیابی سمجھتے ہیں اور جس پر یہ پھولے نہیں سماتے اور جس کی بنا پر یہ لوگ حق بات سننے اور ماننے کو تیار نہیں ہوتے وہ ان کی کامیابی نہیں بلکہ موت کا پھندا اور عذاب مہین کا جال ہے جس میں یہ بدبخت اپنے اعراض و استکبار اور کفر و انکار کی بنا پر مزید از مزید پھنستے اور الجھتے جا رہے ہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین۔
Top