Tafseer-e-Saadi - Al-A'raaf : 72
فَاَنْجَیْنٰهُ وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا وَ قَطَعْنَا دَابِرَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ مَا كَانُوْا مُؤْمِنِیْنَ۠   ۧ
فَاَنْجَيْنٰهُ : تو ہم نے اسے نجات دی (بچا لیا) وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو مَعَهٗ : اس کے ساتھ بِرَحْمَةٍ : رحمت سے مِّنَّا : اپنی وَقَطَعْنَا : اور ہم نے کاٹ دی دَابِرَ : جڑ الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَذَّبُوْا : انہوں نے جھٹلایا بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیات وَمَا : اور نہ كَانُوْا : تھے مُؤْمِنِيْنَ : ایمان لانے والے
پھر ہم نے ہود کو اور جو لوگ ان کے ساتھ تھے انکو نجات دی اور جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا تھا ان کی جڑ کاٹ دی۔ اور وہ ایمان لانے والے تھے ہی نہیں۔
آیت 72 (والی ثمود) ” اور ثمود کی طرف “ ثمود قدیم عربوں کا معروف قبیلہ تھا جو جزیرۃ العرب اور ارض حجاز میں حجر اور اس کے اردگرد کے علاقوں میں آباد تھا (اخاھم صلحاً ) اللہ تعالیٰ نے صالح کو نبی بنا کر ان کی طرف مبعوث کیا جو انہیں توحید اور ایمان کی دعوت دیتے تھے اور انہیں شرک اور اللہ تعالیٰ کے ہمسر گھڑنے سے روکتے تھے۔ (قال یقوم اعبدو اللہ مالکم من الہ غیرہ) ” انہوں نے کہا : اے میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ “ صالح کی دعوت بھی وہی تھی جو ان کے بھائ دیگر انبیا ومرسلین کی دعوت تھی یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حکم دینا اور یہ واضح کردینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا بندوں کا کوئی الہ نہیں (قد جآء تکم بینۃ من ربکم) ” تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک معجزہ آچکا ہے۔ “ یعنی ایک خارق عادت دلیل تمہارے پاس آگئی ہے جو آسمانی معجزہ ہے اور انسان اس قسم کی نشانی پیش کرنے پر قادر نہیں۔ پھر اس کی تفسیر بیان کرتے فرمایا : (ھذہ ناقۃ اللہ لکم ایۃ) ” یہی اللہ کی اونٹنی تمہارے لئے معجزہ ہے۔ “ یہ شرف و فضل کی حامل اونٹنی ہے کیونکہ اللہ کی طرف اس کی اضافت اس کے شرف کی باعث ہے اور اس میں تمہارے لئے ایک عظیم نشانی ہے۔ صالح نے اس اونٹنی کے معجزہ ہونے کی وجہ بیان فرمائی : (لھا شرب ولکم شرب یوم معلوم) (الشعراء :100/26) ” ایک دن اس کے پانی پینے کی باری ہے اور ایک مقررہ دن تمہارے پانی پینے کی باری ہے “ ان کے ہاں ایک بہت بڑا کنواں تھا جو ” اونٹنی والا کنواں “ کے نام سے معروف تھا۔ اسی کنوئیں سے وہ اور اونٹنی اپنی اپنی باری کے مطابق پانی پیتے تھے۔ ایک دن اونٹنی کے پانی پینے کے لئے مقرر تھا۔ وہ اس اونٹنی کے تھنوں سے دودھ پیتے تھے۔ ایک دن لوگوں کے لئے مقرر تھا، اس دن وہ کنوئیں پر پانی لینے کی غرض سے آتے، تو اونٹنی وہاں سے چلی جاتی۔ ان کے نبی صالح نے ان سے کہا : (فذروھا تاکل فی ارض اللہ) ” پس اس کو چھوڑ دو کہ کھائے اللہ کی زمین میں “ تم پر اس اونٹنی کا کچھ بھی بوجھ اور ذمہ داری نہیں (ولا تمسوھا یسوٓء) اور نہ ہاتھ لگاؤ اس کو بری طرح “ یعنی اس کی کونچیں وغیرہ کاٹنے کی نیت سے اسے مت چھونا (فیاخذکم عذاب الیم) ” ورنہ تمہیں ایک درد ناک عذاب آ لے گا۔ “ (واذکروا اذجعلکم خلفآء) ” اور یاد کرو جب اس نے تمہیں جانشین بنایا۔ “ یعنی یاد کرو اس وقت کو، جب زمین میں تمہیں جانشین بنایا، تم اس زمین سے فائدہ اٹھاتے ہو اور اپنے مقاصد حاصل کرتے ہو : (من بعد عاد) ” عاد کے بعد “ جن کو اللہ تعالیٰ نے ہلاک کر ڈالا اور ان کے بعد تمہیں ان کا جانشین مقرر کیا۔ (وبوا کم فی الارض) اور تمہیں زمین پر آباد کیا۔ “ یعنی اس نے زمین میں تمہیں ٹھکانا عطا کیا اور اس نے تمہیں وہ اسباب مہیا کئے جان کے ذریعے سے تم اپنے ارادوں اور مقاصد کو پورا کرتے ہو۔ (تتخذون من سھولھا قصورا) ” اور بناتے ہو تم نرم زمین میں محل “ یعنی نرم اور ہموار زمین پر جہاں پہاڑ نہیں ہوتے۔۔۔ تم قصر تعمیر کرتے ہو (وتنحتون الجبال بیوتا) ” اور پہاڑوں کو تراش تراش کر بناتے ہو گھر “ جیسا کہ پہاڑوں میں ان کے آثار اور مساکن وغیرہ دیکھ کر اب تک مشاہدہ ہوا ہے اور جب تک یہ پہاڑ باقی ہیں یہ آثار بھی باقی رہیں گے۔ (فاذکروا الآء اللہ ” پس اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو۔ “ یعنی تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد کرو کہ اس نے تمہیں اپنے فضل و کرم، رزق اور قوت سے نوازا (ولا تعثوا فی الارض مفسدین) ” اور زمین میں فساد نہ کرتے پھرو۔ “ یعنی فساد اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں کے ذریعے سے زمین کو مت اجاڑو، کیونکہ گناہ آباد شہریوں کو بیابان بنا دیتے ہیں۔ چناچہ ان کے شہر ان سے خالی ہوگئے اور ان کے مساکن بےآباد اجڑے ہوئے باقی رہ گئے۔ (قال الملا الذین استکبروا من قومہ) اس کی قوم کے وہ رؤسا اور اشراف، جنہوں نے تکبر سے حق کو ٹھکرایا۔ انہوں نے کہا (للذین استضفوا) ” ان لوگوں سے جو کمزور تھے “ چونکہ تمام مستضعفین مومن نہ تھے (لمن امن منھم اتعلمون ان صلحاً مرسل من ربہ) ” کہ جو ان میں سے ایمان لا چکے تھے، کیا تم جانتے ہو کہ صالح کو اس کے رب نے بھیجا ہے ؟ “ یعنی انہوں نے ان مستضعفین سے کہا جو صالح پر ایمان لے آئے تھے کہ آیا صالح سچا ہے یا جھوٹا ؟ مستضعفین نے جواب دیا (قالوا انا بما ارسل بہ مؤمنون) ” ہم کو تو جو وہ لے کر آیا، اس پر یقین ہے “ یعنی توحید الٰہی، اس کے بارے میں خبر اور اللہ کے اوامرونواہی ان سب پر ہم ایمان رکھتے ہیں۔ (قال الذین استکبروا انا بالذی امنتم بہ کفرون) ” ان لوگوں نے کہا جنہوں نے تکبر کیا، جس پر تم کو یقین ہے، ہم اس کو نہیں مانتے “ تکبر نے ان کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ حق کی اطاعت نہ کریں جس کی اطاعت قوم صالح کے کمزور و ناتواں لوگ کر رہے ہیں۔ فعقروا الناقۃ) ” پس انہوں نے اس اونٹنی کو ہلاک کردیا “ جس کے بارے میں جناب صالح نے ان کو دھمکی دی تھی کہ اگر انہوں نے اس اونٹنی کو بری نیت سے ہاتھ لگایا تو ان پر درد ناک عذاب نازل ہوگا (وعتوا عن امر ربھم) ” اور سرکشی کی انہوں نے اپنے رب کے حکم سے “ یعنی انہوں نے سخت دلی کا مظاہرہ کیا اور اس کے حکم کو تکبر سے ٹھکرا دیا کہ جس کے خلاف اگر کوئی سرکشی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے سخت عذاب کا مزا چکھاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر وہ عذاب نازل کیا جو دوسروں پر نازل نہیں کیا۔ (وقالوا) ان افعال کے ارتکاب کے ساتھ ساتھ انہوں نے جناب الٰہی میں جسارت کرتے ہوئے، اسے عاجز سمجھتے ہوئے اور اپنے کر تتوں کی پروانہ کرتے ہوئے، بلکہ ان پر فخر کرتے ہوئے کہا : (یصلح ائتنا بما تعدنا) ” اے صالح ! لے آہم پر جس سے تو ہم کو ڈراتا ہے “ یعنی جس عذاب کی تو ہمیں دھمکی دیتا ہے (ان کنت من المرسلین) اگر تو رسول ہے۔ (آیت) صالح نے کہا اپنے گھروں میں تین دن اور فائدہ اٹھا لو یہ ایسا وعدہ ہے جو جھوٹا نہ ہوگا۔ “ (آیت) ” پس آپکڑا ان کو زلزلے نے پھر صبح کو رہ گئے اپنے گھروں میں اوندھے پڑے “ وہ اپنے گھٹنوں کے بل اوندھے منہ پڑے رہ گئے۔ اللہ نے ان کو ہلاک کردیا اور ان کی جڑ کاٹ دی۔ (فتولی عنھم) ” پس صالح ان سے منہ پھیر کر چل دیئے “ جب اللہ تعالیٰ نے ان پر عذاب نازل فرمایا تو صالح ان کو چھوڑ کر چل دیئے (وقال) اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے ان کو ہلاک کردینے کے بعد ان سے مخطاب ہو کر ان کو زجر و توبیخ کرتے ہوئے فرمایا : (یقوم لقد ابلغتکم رسالۃ ربی ونصحت لکم) ” اے میری قوم ! میں نے تم کو اللہ کا پیغام پہنچا دیا اور تمہاری خیر خواہی کی۔ “ یعنی میں ان تمام احکامات کو تم تک پہنچا چکا ہوں جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے مجھے تمہاری طرف مبعوث کیا تھا۔ میں تمہاری ہدایت کا بہت متمنی تھا اور میں نے تمہیں صراط مستقیم اور دینق یم پر گامزن کرنے کی بہت کوشش کی۔ (ولکن لاتحبون النصحین) ” لیکن تم خیر خواہوں کو پسند نہیں کرتے “ بلکہ تم نے خیر خواہوں کی بات کو ٹھکرا دیا اور ہر دھتکارے ہوئے شیطان کی اطاعت کی۔ معلوم ہونا چاہیے کہ اس قصہ کے ضمن میں بہت سے مفسرین ذکر کرتے ہیں کہ صالح کی اونٹنی ایک نہایت سخت اور چکنی چٹان سے اس وقت برآمد ہوئی تھی جب کفار نے صالح سے معجزے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس پتھر نے اونٹنی کو اسیط رح جنم دیا تھا جس طرح کوئی حاملہ اپنے بچے کو جنم دیتی ہے۔ ان کے دیکھتے دیکھت ییہ اونٹنی پتھر میں سے برآمد ہوئی۔ جب انہوں نے اونٹنی کو ہلاک کیا تو اس کے ساتھ اس کا بچہ بھی تھا۔ یہ بچہ تین بار بلبلایا، اس کے سامنے پہاڑ پھٹ گیا اور اونٹنی کا یہ بچہ پہاڑ کے اس شگاف میں داخل ہوگیا۔ نیز ان مفسرین کے مطابق صالح نے کفار سے فرمایا تھا کہ تم پر عذاب کے نازل ہونے کی نشانی یہ ہے کہ ان مذکورہ تین دنوں میں پہلے دن تمہارے چہرے زرد، دوسرے دن سرخ اور تیسرے دن سیاہ پڑجائیں گے اور جیسے حضرت صالح نے کہا تھا ویسا ہی ہوا۔ ان مفسرین کا بیان کردہ یہ قصہ اسرائیلیات میں شمار ہوتا ہے جن کو اللہ کی کتاب کی تفسیر میں نقل کرنا مناسب نہیں۔ قرآن مجید میں کوئی ایسی چیز وارد نہیں ہوئی جو کسی بھ پہلو سے اس کی صداقت پر دلالت کرتی ہو، بلکہ اس کے برعکس اگر یہ قصہ صحیح ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس کا ضرور ذکر فرماتا، کیونکہ یہ واقعہ بہت تعجب انگیز، عبرت انگیز اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانی ہوتا اللہ تعالیٰ کبھی اس کو مہمل نہ چھوڑتا اور اپنی کتاب میں اس کا ذکر کئے بغیر نہ رہتا اور یوں یہ قصہ ناقابل اعتماد ذرائع سے نقل نہ ہوتا۔ بلکہ قرآن کریم اس قصہ کے بعض مشمولات کی تکذیب کرتا ہے۔ صالح نے اپنی قوم سے فرمایا تھا : (تمتعوا انی دارکم ثلثۃ ایام) (ھود :65/11) ” اپنے گھروں میں تین دن اور فائدہ حاصل کرلو۔ “ یعنی اس بہت ہی تھوڑے سے وقت میں نعمتوں اور لذتوں سے استفادہ کرلو، کیونکہ اس کے بعد تمہارے حصے میں کوئی لذت نہ ہوگی اور ان لوگوں کے لئے کون سی لذت اور نعمتوں سے فائدہ اٹھانا ہوسکتا ہے، جن کو ان کے نبی نے عذاب کے وقوع کی وعید سنائی ہو اور اس عذاب کے مقدمات کا بھی ذکر کردیا ہو اور یہ عذاب روز بروز بتدریج اسی طریقے سے واضع ہو رہا ہو، جو سب کو شامل ہو کیونکہ ان کے چہروں کا سرخ، زرد اور پھر سیاہ ہوجانا اللہ تعالیٰ کا عذاب ہے ؟ کیا یہ قصہ قرآن کے بیان کردہ واقعات کے خلاف اور متضاد نہیں ؟ جو کچھ قرآن بیان کرتا ہے وہی کافی ہے اور وہی راہ ہدایت ہے۔ ہاں ! جو چیز رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہوجائے اور وہ کتاب اللہ کے خلاف نہ ہو تو سر آنکھوں پر اور یہی وہ چیز ہے جس کی اتباع کا قرآن نے حکم دیا ہے۔ (آیت) ” جو کچھ رسول تمہیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے روک دے اس سے رک جاؤ۔ “ گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے کہ اسرائیلی روایات سے کتاب اللہ کی تفسیر کرنا جائز نہیں، اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ ایسے امور کو، جن کا جھوٹ ہونا قطعی نہ ہو، بنی اسرائیل سے روایت کرنا جائز ہے۔ تب بھی ان کے ذریعے سے کتاب اللہ کی تفسیر کرنا جائز نہیں۔ کیونکہ کتاب اللہ کے معانی یقینی ہیں اور ان اسرائیلیات کی تصدیق کی جاسکتی ہے نہ تکذیب۔ پس دونوں میں اتفاق ناممکن ہے۔
Top