Tafseer-e-Saadi - Al-Anfaal : 25
وَ اتَّقُوْا فِتْنَةً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْكُمْ خَآصَّةً١ۚ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ
وَاتَّقُوْا : اور ڈرو تم فِتْنَةً : وہ فتنہ لَّا تُصِيْبَنَّ : نہ پہنچے گا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو ظَلَمُوْا : انہوں نے ظلم کیا مِنْكُمْ : تم میں سے خَآصَّةً : خاص طور پر وَاعْلَمُوْٓا : اور جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ شَدِيْدُ : شدید الْعِقَابِ : عذاب
اور اس فتنے سے ڈرو جو خصوصیت کے ساتھ انہیں لوگوں پر واقع نہ ہوگا جو تم میں گنہگار ہیں۔ اور جان رکھو کہ خدا سخت عذاب دینے والا ہے۔
آیت 25 اللہ تبارک و تعالیٰ اہل ایمان کو ان امور کا حکم دیتا ہے جو ان کے ایمان کا تقاضا ہے یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی آواز پر لبیک کہنا، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے جو حکم دیا ہے اسکی تعمیل کرنا، اس کی تعمیل کے لئے سبقت کرنا اور اس کی طرف لوگوں کو دعوت دینا اور انہوں نے جس چیز سے روکا ہے اس سے باز رہنا اور اس سے اجتناب کرنا۔ (اذا دعا کم لما یحییکم) ” جس وقت بلائے تم کو اس کام کی طرف جس میں تمہاری زندگی ہے “ یہ ہر اس امر کا وصف لازم ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ﷺ دعوت دیتے ہیں اور نیز یہ اس کے حکم کے فائدے اور حکمت کو بیان کرتا ہے، کیونکہ قلب و روح کی زندگی کا دار و مدار اللہ تعالیٰ کی عبودیت، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کے دائمی التزام پر ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اللہ اور رسول کی پکار پر لبیک نہ کہنے پر ڈراتے ہوئے فرمایا : (واعلموآ ان اللہ یحول بین المرء و قلبہ) ” اور جان لو کہ اللہ آڑ بن جاتا ہے آدمی اور اس کے دل کے درمیان “ اس لئے جب اللہ تعالیٰ کا حکم پہلی بار تمہارے پاس آئے، تو اس کو ٹھکرانے سے بچو کیونکہ پھر اگر اس کے بعد اس کا ارادہ کرو گے تو اللہ تعالیٰ اس کے درمیان اور تمہارے درمیان حائل ہ جائے گا اور تمہارے دلوں میں اختلاف پیدا ہوجائے گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ بندے اور اس کے قلب کے درمیان حائل ہوجاتا ہے۔ جیسے چاہتا ہے اسے ادل بدل کرتا ہے اور جیسے چاہتا ہے اس میں تصرف کرتا ہے۔ پس بندے کو بہت کثرت سے یہ دعا کرتے رہنا چاہیے۔ (آیت) فرمایا : (وانہ الیہ تحشرون) ” اور یہ کہ تم سب اس کے روبرو جمع کئے جاؤ گے۔ “ یعنی تم سب اس دن اکٹھے کئے جاؤں گے جس کے آنے میں کوئی شک و شبہ نہیں وہ نیکو کاروں کو ان کی نیکی کی جزا اور بدکاروں کو ان کی بدی کی سزا دے گا۔ (واتقوا فتنۃ لاتصیبن الذین ظلموا منکم خآصۃ) ” اور اس فتن سے بچو، جو تم میں سے خاص ظالموں پر ہی نہیں آئے گا “ بلکہ یہ فتنہ ظلم کرنے والوں اور دیگر لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا اور اس کا سبب یہ ہے کہ جب ظلم غالب آجائے اور اس کو بدلا نہ جائے تو اس کی سزا ظلم کرنے والوں اور دوسرے لوگوں، سب کے لئے عام ہوتی ہے۔ اس لئے برئایوں سے منع کر کے، اہل شرکا قلع قمع کر کے وہ ظلم اور معاصی کا ارتکاب نہ کرسکیں، اس فتنہ سے بچا جائے (واعلموآ ان اللہ شدید العقاب) ” اور جان لو کہ اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔ “ جو کوئی اللہ تعالیٰ کی ناراضی مول لیتا ہے اور اس کی رضا کو ترک کردیتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کو سخت عذاب دیتا ہے۔
Top