Siraj-ul-Bayan - Yunus : 94
فَاِنْ كُنْتَ فِیْ شَكٍّ مِّمَّاۤ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ فَسْئَلِ الَّذِیْنَ یَقْرَءُوْنَ الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكَ١ۚ لَقَدْ جَآءَكَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَۙ
فَاِنْ : پس اگر كُنْتَ : تو ہے فِيْ شَكٍّ : میں شک میں مِّمَّآ : اس سے جو اَنْزَلْنَآ : ہم نے اتارا اِلَيْكَ : تیری طرف فَسْئَلِ : تو پوچھ لیں الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَقْرَءُوْنَ : پڑھتے ہیں الْكِتٰبَ : کتاب مِنْ قَبْلِكَ : تم سے پہلے لَقَدْ جَآءَكَ : تحقیق آگیا تیرے پاس الْحَقُّ : حق مِنْ : سے رَّبِّكَ : تیرا رب فَلَا تَكُوْنَنَّ : پس نہ ہونا مِنَ : سے الْمُمْتَرِيْنَ : شک کرنے والے
سو (اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کچھ ہم نے تیری طرف نازل کیا ، اگر تجھے اس میں شک ہے ‘ تو ان سے پوچھ جو تجھ سے پہلے کتاب پڑھ رہے ہیں بیشک تیرے رب سے تیری طرف حق بات آئی ہے ، تو تو ہرگز شک کرنے والوں میں نہ ہو (ف 1) ۔
1) قرآن حکیم کا انداز بیان ہے کہ مخاطب حضور ﷺ کو کیا جاتا ہے اور مقصود دوسرے ہوتے ہیں ، کیونکہ آپ ترجمان وحی ہیں اور انسانیت کے وکیل بھی اس لئے اللہ تعالیٰ بالوحی انہیں سے تخاطب فرماتے ہیں ، ورنہ آنحضرت ﷺ شک وریب سے پاک ہیں ، وہ تو سراپا یقین و ایمان ہیں ، حضرت ابن عباس ؓ سعید بن جبیر ، ؓ قتادہ ؓ اور حسن بصری (رح) سے روایت ہے کہ ” لم یسئلک رسول اللہ “۔ یعنی حضور ﷺ کو کبھی شک نہیں پیدا ہوا ۔ اور غور فرمائیے جو دوسروں کو ایمان ویقین کی نعمتیں بانٹ رہا ہے ، جو دلوں کو نور ومعرف سے اجاگر کر رہا ہے کیا وہ خود سرمردود ہو سکتا ہے ۔ غرض یہ ہے کہ قرآن سابقہ کتب کا موید ہے توریت وانجیل میں صدہا پیش گوئیاں موجود ہیں ، جو قرآن کی صداقت پر دال ہیں ۔ حل لغات : حقت علیم کلمت ربک : یعنی جن کی فطرت کے متعلق پہلے سے علم ہے کہ یہ حق کی طرف رجوع نہیں کرینگے وہ کیونکر ایمان کی دولت سے بہرہ ور ہو سکتے ہیں ۔
Top