Tadabbur-e-Quran - Al-Kahf : 80
وَ اَمَّا الْغُلٰمُ فَكَانَ اَبَوٰهُ مُؤْمِنَیْنِ فَخَشِیْنَاۤ اَنْ یُّرْهِقَهُمَا طُغْیَانًا وَّ كُفْرًاۚ
وَاَمَّا : اور رہا الْغُلٰمُ : لڑکا فَكَانَ : تو تھے اَبَوٰهُ : اس کے ماں باپ مُؤْمِنَيْنِ : دونوں مومن فَخَشِيْنَآ : سو ہمیں اندیشہ ہوا اَنْ يُّرْهِقَهُمَا : کہ انہی پھنسا دے طُغْيَانًا : سرکشی میں وَّكُفْرًا : اور کفر میں
رہا لڑکا تو اس کے ماں باپ باایمان تھے۔ ہمیں اندیشہ ہوا کہ کہیں وہ بڑا ہو کر سرکشی و ناشکری سے ان پر تعدی نہ کرے
تفسیر آیات 80 تا 81: وَأَمَّا الْغُلامُ فَكَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ فَخَشِينَا أَنْ يُرْهِقَهُمَا طُغْيَانًا وَكُفْرًا (80) فَأَرَدْنَا أَنْ يُبْدِلَهُمَا رَبُّهُمَا خَيْرًا مِنْهُ زَكَاةً وَأَقْرَبَ رُحْمًا (81) رُحم کے معنی رقت قلب، ہمدردی اور محبت و شفقت کے ہیں۔ خَيْرًا مِنْهُ زَكَاةً وَأَقْرَبَ رُحْمًا، یعنی طبیعت اور اخلاق کی پاکزگی کے اعتبار سے اس سے بہتر اور دردمندی اور مروت کے اعتبار سے اس سے زیادہ پاس ولحاظ والا۔ لڑکے کے قتل کی حکمت : اب یہ لڑکے کے قتل کی حکمت بتائی کہ اس کے ماں باپ مومن تھے اور یہ کفر پر اٹھنے والا تھا، ہمیں اندیشہ ہوا کہ یہ جوان ہو کر ماں باپ کو اپنی سرکشی و ناسپاسی سے مبتلائے اذیت کرے گا۔ ہم نے چاہا کہ اس سرکش و نافرمان کی جگہ اللہ ان کو ایسی اولاد دے جو پاک نفس اور ہمدردی کرنے والی ہو۔ یہ مثال ہے اس بات کی کہ اہل ایمان کو اگر کوئی مصیبت جانی پہنچتی ہے تو اس میں بھی ان کے لیے کوئی خیر عظیم مضمر ہوتا ہے جس کو صرف اللہ ہی جانتا ہے اس وجہ سے اہل ایمان کو چاہیے کہ وہ اس پر صبر کریں۔ جس دن اس کی حکمت واضح ہوگی معلوم ہوجائے گا کہ جو کچھ خدا نے کیا اسی میں خیر و فلاح تھی۔
Top