Tadabbur-e-Quran - Al-Muminoon : 46
اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡئِهٖ فَاسْتَكْبَرُوْا وَ كَانُوْا قَوْمًا عَالِیْنَۚ
اِلٰى : طرف فِرْعَوْنَ : فرعون وَمَلَا۟ئِهٖ : اور اس کے سردار فَاسْتَكْبَرُوْا : تو انہوں نے تکبر کیا وَكَانُوْا : اور وہ تھے قَوْمًا : لوگ عَالِيْنَ : سرکش
فرعون اور اس کے درباریوں کے پاس رسول بنا کر تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ نہایت مغرور لوگ تھے
آیت 48-46 فرعونیوں کے قومی مزاج کی خصوصیت یعنی انہوں نے بھی وہی استکبار کی روش اختیار کی جو ہمیشہ سے انبیاء کے مکذبین کی رہی ہے۔ وکانوا قوما عالین ان کے قومی مزاج کی خصوصیت کی طرف اشارہ ہے کہ یہ اکستابر ان کے کسی قوتی ہیجان اواشتعال کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ یہ تھے ہی نہایت سرکش اور مغرور لوگ، فرعونیوں کے اسی مزاج کے سبب سے اللہ تعالیٰ نے جب حضرت موسیٰ ؑ کو فرعون کے پاس بھیجا تو فرمایا کہ اذھب الی فرعون انہ طغی (طہ :24) (فرعون کے پاس جائو، وہ بہت سرکش ہوگیا ہے) اور یہ بات بھی ہم اس کے محل میں ذکر کرچکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی مرحلہ میں حضرت موسیٰ کو عصا کا معجزہ جو عطا فرمایا تو اسی لئے عطا فرمایا کہ ان کا مقابل ہسخت سرکشوں سے تھا۔ ان سرکشوں کی سرکوبی کے لئے حضرت موسیٰ کا مسلح ہونا ضروری تھا۔ فقالوآ انومن لبشرین مثلنا وقومھما لنا عبدون یہ ان کے استکبار کی وضاحت ہے کہ انہوں نے اپنے آپ کو حق سے بالاتر سمجھا اور کہا کہ ہم اپنے ہی جیسے دو انسانوں کی بات باور کر کے اپنے اوپر ان کی بالاتری کس طرح تسلیم کرلیں بالخصوص جب کہ ان کی قوم ہماری غلامی و تابعداری کر رہی ہے ! فکذبوھما فکانوا من المھ لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ اس غرے میں مبتلا ہو کر انہوں نے اپنے رسولوں کو جھٹلا دیا اور اسی کھڈ میں جا گرے جس میں ان سے پہلے ان کے بہت سے ہم شرب گر کے تباہ ہوچکے تھے۔
Top