Tadabbur-e-Quran - An-Naml : 15
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ عِلْمًا١ۚ وَ قَالَا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ فَضَّلَنَا عَلٰى كَثِیْرٍ مِّنْ عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِیْنَ
وَ لَقَدْ اٰتَيْنَا : اور تحقیق دیا ہم نے دَاوٗدَ : داود وَسُلَيْمٰنَ : اور سلیمان عِلْمًا : (بڑا) علم وَقَالَا : اور انہوں نے کہا الْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰهِ : اللہ کے لیے الَّذِيْ : وہ جس نے فَضَّلَنَا : فضیلت دی ہمیں عَلٰي : پر كَثِيْرٍ : اکثر مِّنْ : سے عِبَادِهِ : اپنے بندے الْمُؤْمِنِيْنَ : مون (جمع)
اور ہم نے دائود اور سلیمان کو بڑا علم عطا فرمایا اور انہوں نے کہا کہ شکر ہے اللہ کے لئے جس نے اپنے بہت سے مومن بندوں پر ہمیں فضیلت عطا فرمائی
آگے کا مضمون ……آیات 44-15 اوپر کی آیات سے یہ حقیقت واضح ہوئی کہ حق کے انکار کا اصل سبب حقیقت کا خفا نہیں بلکہ لوگوں کا ظلم و استکبار ہے۔ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نعمت عطا فرماتا ہے وہ نعمت ان کے لئے فتنہ بن جاتی ہے اور وہ بجائے اس کے کہ خدا کے زیادہ سے زیادہ شکر گزار اور اس کے فرمانبردار بندے نہیں خدا سے اکڑنے والے اور اس کی زمین میں فساد برپا کرنے والے بن جاتے ہیں۔ اب ان کے مقابل میں اللہ کے صالح و مصلح بندوں کر ذکر ہو رہا ہے کہ ان پر اللہ کی نعمتیں جتنی ہی زیادہ ہوتی جاتی ہیں ان کی گردنیں ثمر بار شاخ کی طرح خدا کے آگے اتنی ہی جھکتی جاتی ہیں۔ اس کردار کی عملی مثال کے طور پر حضرت دائود اور حضرت سلیمان (علیہما السلام) کو پیش کیا گیا ہے۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے جو عظمت و شوکت عطا فرمائی ان کے ہم عصر حکمرانوں میں کسی کو بھی وہ حاصل نہیں ہوئی اور جن اسباب و وسائل پر ان کو تصرف بخشا ان پر کسی کو بھی تصرف حاصل نہ ہوا لیکن یہ سب کچھ پا کر وہ کسی ظلم یا استکبار میں مبتلا نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے ہر نعمت کو اللہ تعالیٰ کا ایک امتحان جانا، اس کا پورا پورا حق ادا کرنے کی کوشش اور اس امتحان میں پورے اترے۔ اس روشنی میں آیات کی تلاوت فرمایئے۔ علم سے مراد علم کے مراد وہ حکمت و معرفت بھی ہے جو حضرات دائود اور سلیمان (علیہما السلام) کو حاصل ہوئی جس کا مظہر زبور اور امثال ہیں اور سائنس کا وہ علم بھی ہے جس کی بدولت انہوں نے وہ عظیم سلطنت قائم کی جو اپنی بری و بحری قوت کے اعتبار سے اپنے زمانی کی سب سے زیادہ طاقت ور سلطنت تھی۔ سورة انبیاء کی تفسیر میں اس کی تفصیلات گزر چکی ہیں۔ حضرت دائود اور حضرت سلیمان کا جذبہ شکر وقالا الحمد اللہ الذی الآیہ یہ ان کے شکر وسپاس کی تعبیر ہے کہ اپنے زمانے کی سب سے زیادہ طاقت ور حکومت کے فرماں روا اور ایجادات و ضائع میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ ہونے کے ایک باوجود ان کے اندر ایک لمحہ کے لئے بھی یہ گھمنڈ نہیں پیدا ہوا کہ یہ سب کچھ انکے اپنے ذاتی کارنامے ہیں بلکہ وہ برابر اپنے رب کے شکر گزار رہے کہ یہ عزت و فضیلت ان کو اللہ نے عطا فرمائی ہے۔ علی کثیر من عبادہ المومنین کے اندر یہ حقیقت مضمر ہے کہ اصل عزت و فضیلت ایمان کی عزت و فضیلت ہے۔ جس کو یہ حاصل نہیں ہے اس کے لئے عزت و فضیلت کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ البتہ یہ عزت و فضیلت کی بات ہے کہ کسی کو اللہ تعالیٰ اپنے باایمان بندوں میں سرفرازی بخشے۔
Top