Tadabbur-e-Quran - An-Naml : 32
قَالَتْ یٰۤاَیُّهَا الْمَلَؤُا اَفْتُوْنِیْ فِیْۤ اَمْرِیْ١ۚ مَا كُنْتُ قَاطِعَةً اَمْرًا حَتّٰى تَشْهَدُوْنِ
قَالَتْ : وہ بولی يٰٓاَيُّهَا الْمَلَؤُا : اے سردارو ! اَفْتُوْنِيْ : مجھے رائے دو فِيْٓ اَمْرِيْ : میرے معاملے میں مَا كُنْتُ : میں نہیں ہوں قَاطِعَةً : فیصلہ کرنے والی اَمْرًا : کسی معاملہ میں حَتّٰى : جب تک تَشْهَدُوْنِ : تم موجود ہو
اس نے کہا، اے درباریو، میرے اس معاملے میں مجھے پرانے دور میں کسی معاملے کا اس وقت تک فیصلہ نہیں کرتی جب تک آپ لوگ موجود نہوں
ملکہ سبا کا مشورہ اپنے درباریوں سے خط کا مضمون سنا کر مکلہ نے درباریوں سے مشورہ طلب کیا کہ آپ لوگ اس معاملے میں رائے دیجیے کہ مجھے کیا رویہ اختیار کرنا چاہئے ؟ اور ساتھ ہی اہل دربار کی دلجوئی و استمالت کے لئے یہ بھی کہا کہ میں کسی اہم معاملے کا فیصلہ اس وقت تک نہیں کرتی جب تک آپ لوگوں کی موجودگی میں آپ لوگوں کا مشورہ نہ حاصل کرلوں۔ اس دل جوئی کی ضرورت ملکہ نے غالباً اس لئے محسوس کی کہ وہ حضرت سلیمان ؑ سے جنگ کے لئے جیسا کہ آگے کے حالات سے واضح ہوگا، تیار نہیں تھیں اور ان کی یہ خواہش تھی کہ ان کے اعیان بھی معاملہ پر اسی طرز سے سوچیں جس طرز سے وہ سوچ رہی ہیں۔ یہ امر محلوظ رہے کہ کوئی شخصی حکومت بھی اس معنی میں شخصی نہیں ہوا کرتی کہ بادشاہ اپنی ذات کے سوا ہر شخص سے بالکل مستغنی ہو۔ اس معنی میں شخصی تو فرعون کی حکومت بھی نہیں تھی۔ آخر وہ بھی اپنے اعیان اور درباریوں سے مشورہ کرتا تھا ! اسی طرح ملکہ سبانے بھی اپنے اعیان سے مشورہ کیا۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ ملکہ سبا کی حکومت جمہوری یا شورائی تھی ہمارے نزدیک صحیح نہیں ہے۔ اس کو کہہ سکتے ہیں تو الیمانی حکومت کہہ سکتے ہیں اور وہ بھی ایک خاص مفہوم میں
Top