Tadabbur-e-Quran - An-Naml : 86
اَلَمْ یَرَوْا اَنَّا جَعَلْنَا الَّیْلَ لِیَسْكُنُوْا فِیْهِ وَ النَّهَارَ مُبْصِرًا١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ
اَلَمْ يَرَوْا : کیا وہ نہیں دیکھتے اَنَّا : کہ ہم جَعَلْنَا : ہم نے بنایا الَّيْلَ : رات لِيَسْكُنُوْا : کہ آرام حاصل کریں فِيْهِ : اس میں وَالنَّهَارَ : اور دن مُبْصِرًا : دیکھنے کو اِنَّ : بیشک فِيْ ذٰلِكَ : اس میں لَاٰيٰتٍ : البتہ نشانیاں لِّقَوْمٍ : ان لوگوں کے لیے يُّؤْمِنُوْنَ : ایمان رکھتے ہیں
کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے رات کو تاریک بنایا تاکہ وہ اس میں آرام کریں اور دن کو روشن بنایا تاکہ اس میں کام کریں۔ بیشک اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو ایمان لانا چاہیں
اس آیت میں، عربیت کے معروف اسلوب کے مطابق، ماقبل الفاظ محذوف ہیں۔ پہلے ٹکڑے میں مظلماً ، ذف ہے اور دوسرے ٹکڑے میں تعملوا یا اس کے ہم معنی کوئی فعل و اسایجاز کی بلاغت کی وضاحت اس کے محل میں ہوچکی ہے۔ فعل یومنون یہاں ارادہ فعل کے مفہوم میں ہے۔ عذاب کی نشانی مانگنے والوں کو ملامت یہ نشانی عذاب کا مطالبہ کرنے والوں کو ملامت ہے کہ آخر یہ محروم القسمت لوگ عذاب ہی دیکھنے کے لئیکیوں اڑے ہوئے ہیں، اس کائنات کی نشانیوں پر کیوں نہیں غور کرتے ! کیا ان کو ہماری ہر روز ظاہر ہونے والی یہ عظیم قدرت و حکمت نظر نہیں آتی کہ ہم نے رات کو تاریک و پرسکون بنایا تاکہ وہ اس میں سکون و راحت حاصل کریں اور دن کو روشن بنایا تاکہ وہ اس میں کام کریں۔ ان فی ذلک لایت تقوم یومنون اس میں ایک ہی نہیں بلکہ بہت سی نشانیاں موجود ہیں لیکن یہ نشانیاں ان لوگوں کو نظر آسکتی ہیں جن کے اندر ایمان لانے کا ارادہ پایا جاتا ہو۔ شب وروز کے یکے بعد دیگرے آمد و شد، تضاد کے باوصف ان کے توافق اور خلق کے لئے ان کی فیض رسانی ہے۔ اس کائنات کے خالق کی قدرت، حکمت، ربوبیت، توحید اور حشر و نشر پر قرآن نے جو دلیلیں قائم کی ہیں اس کائنات کے خالق کی قدرت، حکمت، ربوبیت، توحید اور حشر و نشر پر قرآن نے جو دلیلیں قائم کی ہیں ان کی وضاحت جگہ جگہ ہوچکی ہے۔ یہاں لفظ ایت سے اجمالی اشارہ ان سب کی طرف ہے لیکن موقع ومحل کے تقاضے سے خاص طور پر قیامت اور حشر ونشر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اس کا مشاہدہ تو اس دنیا میں ہر روز کر رہے ہو۔ جس طرح تم رات میں ہر روز سوتے ہو اور پھر صبح کو اٹھ بیٹھتے ہو اسی طرح مرنے کے بعد ایک وقت آئے گا کہ اٹھ بیٹھو گے۔ خدا ہر چوبیس گھنٹوں میں یہ مشاہدہ اسی لئے کرا رہا ہے کہ اصل حقیقت کی یاد دہانی تمہیں ہر روز ہوتی رہے لیکن جو لوگ کسی بات کو ماننا ہی نہ چاہیں ان کی ہٹدھرمی کا کیا علاج ! سورة فرقان کی آیت 47 میں اس حقیقت کی طرف یوں توجہ دلائی ہے۔ آیت الفرقان 47 اور وہی جس نے تمہارے لئے شب کو پردہ پوش، نیند کو دافع کفت اور دن کو وقت نشور بنایا۔ اور اسی کی تذکیر و دعا کرتی ہے جو سو کر اٹھنے کے وقت کے لئے نبی ﷺ نے تلقین فرمائی ہے۔
Top