Tadabbur-e-Quran - Aal-i-Imraan : 28
لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ١ۚ وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰهِ فِیْ شَیْءٍ اِلَّاۤ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْهُمْ تُقٰىةً١ؕ وَ یُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهٗ١ؕ وَ اِلَى اللّٰهِ الْمَصِیْرُ
لَا يَتَّخِذِ :نہ بنائیں الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع) الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع) اَوْلِيَآءَ : دوست (جمع) مِنْ دُوْنِ : علاوہ (چھوڑ کر) الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) وَمَنْ : اور جو يَّفْعَلْ : کرے ذٰلِكَ : ایسا فَلَيْسَ : تو نہیں مِنَ : سے اللّٰهِ : اللہ فِيْ شَيْءٍ : کوئی تعلق اِلَّآ : سوائے اَنْ : کہ تَتَّقُوْا : بچاؤ کرو مِنْھُمْ : ان سے تُقٰىةً : بچاؤ وَيُحَذِّرُكُمُ : اور ڈراتا ہے تمہیں اللّٰهُ : اللہ نَفْسَهٗ : اپنی ذات وَاِلَى : اور طرف اللّٰهِ : اللہ الْمَصِيْرُ : لوٹ جانا
اہل ایمان مومنوں کے برخلاف کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں اور جو ایسا کریں گے تو اللہ سے ان کو کوئی تعلق نہیں، مگر یہ کہ تم ان سے بچو جیسا بچنے کا حق ہے، اللہ تمہیں اپنی ذات سے ڈراتا ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے۔
اس آیت میں ”مومنین“ سے مراد مذبذب مسلمان اور ”کافرین“ سے مراد یہود ہیں۔ ”مومنون“ کا لفظ اگرچہ بظاہر عام ہے لیکن مراد اس سے خاص طور پر وہ مسلمان ہیں جو ابھی پوری طرح یکسو نہیں ہوئے تھے بلکہ کچھ اپنے ذاتی مصالح کی وجہ سے اور کچھ اسلام کے مستقبل کے بارے میں، جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے، غیر مطمئن ہونے کے باعث، یہود کی طرف میلان رکھتے تھے، اور یہود اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جو سازشیں کرتے تھے اس میں وہ ان کو آلہ کار بنا لیتے تھے اور یہ ان کے آلہ کار بن جاتے تھے۔ ان کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اب یہود کے ساتھ موالات اور دوستی اجڑے گھر کی دربانی بھی ہے اور یہ حرکت ایمان و اسلام کے دعوے کے منافی بھی ہے۔ ”کافرین“ سے یہاں مراد اہل کتاب خاص طور پر یہود ہیں جیسا کہ آیت 21 میں ان کے کفر کی تصریح گزر چکی ہے۔ ”ولی“ کے معنی کارساز، حمایتی، ساتھی، دوست اور مددگار کے ہیں جس کی طرف ضرورت کے وقت رجوع کیا جائے اور جس کا حمیت و حمایت کے جذبے سے ساتھ دیا جائے۔ فرمایا کہ مسلمانوں کے لیے جائز نہیں کہ وہ کافروں کو اپنا ولی بنائیں لیکن اس کے ساتھ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ کی قید ہے یعنی کافروں کے ساتھ صرف اس قسم کی موالات ناجائز ہے جو مسلمانوں کے بالمقابل یا ان کے مفاد و مصالح کے خلاف ہو۔ اسلام اور مسلمانوں کا حق اور مفاد دوسرے تمام حقوق و مفادات پر مقدم ہے اس لیے مسلمانوں کی کسی جماعت کے لیے یہ بات جائز نہیں ہے کہ کہ وہ اسلام اور مسلمانون کے مفاد و مصالح کے برخلاف کفار کی کسی جماعت کے ساتھ موالات کا تعلق قائم کرے۔ اس قید نے یہ بات واضح کردی کہ غیر حربی کفار کے ساتھ اس نیکی، عدل، اور احسان کی ممانعت نہیں ہے جس کی اسلام نے تمام بنی نوع انسان کے معاملے میں ہدایت فرمائی ہے۔ مسلمان غیر مسلم قوموں اور حکومتوں کے ساتھ دوستانی سیاسی و اقتصادی معاہدے بھی کرسکتے ہیں بشرطیکہ وہ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ نہ ہوں۔ اس مسئلے پر تفصیلی بحث ہم آگے موزوں مقام پر کریں گے۔ اِلَّآ اَنْ تَتَّقُوْا لایۃ کا صحیح مفہوم : اِلَّآ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْھُمْ تُقٰىةً (مگر یہ کہ ان سے بچو جیسا کہ بچنے کا حق ہے)۔ تُقٰىةً ، جس طرح اس سورة کی آیت 102 ”اتقوا للہ حق تقاتہ“ میں مفعول مطلق کے طور پر استعمال ہوا ہے اسی طرح یہاں بھی مفعول مطلق ہے جس سے فعل کی تاکید ظاہر ہو رہی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو مسلمان اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کفار سے موالات کا تعلق رکھتے ہیں ان کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس قسم کے لوگ، جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا ہے ”ومن یتولہم منکم فانہ منہم“ انہی لوگوں کے اندر شامل ہیں جن سے یہ موالات رکھتے ہیں، اللہ اور اعداء اللہ دونوں کے ساتھ بیک وقت دوستی قائم نہیں رکھی جاسکتی، اللہ سے دوستی کے لیے ضروری ہے کہ ان لوگوں سے اپنا دامن بچا کے رکھو جو اللہ کے، اس کے دین کے اور اس کے وفادار بندوں کے دشمن ہیں۔ یہ جملہ گویا فَلَيْسَ مِنَ اللّٰهِ فِيْ شَيْءٍ سے استثناء ہے یعنی اس نفی سے مستثنی صرف وہی ہیں جو ان کفار کی مخالف اسلام موالات سے اس طرح بچیں جس طرح اس سے بچنے کا حق ہے۔ اس آیت سے جن لوگوں نے تقیہ کا جواز نکالا ہے انہوں نے لغت، نظائر قرآن اور سیاق وسباق ہر چیز کو نظر انداز کیا ہے لیکن صحیح تاویل واضح ہوجانے کے بعد اب اس تردید کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ اس موقع پر قرآن مجید کی یہ آیت بھی پیش نظر رہے لا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ : تم کوئی ایسی قوم نہیں پا سکتے جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتی ہو، پھر وہ ان لوگوں سے دوستی رکھے جو اللہ اور اس کے رسول سے دشمنی رکھتے ہیں۔ منافقین کے لیے تنبیہ کا ایک خاص پہلو : وَيُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهٗ (اور اللہ تمہیں اپنی ذات سے ہوشیار کرتا ہے) میں منافقین کے لیے تنبیہ کا ایک خاص پہلو ہے۔ وہ یہ کہ اللہ کی کریمی سے دھوکے میں پڑ کے اس کی ذات کے دوسرے پہلوؤں کو نظر انداز نہ کر جاؤ۔ وہ اگر شرارتوں سے درگز کرتا ہے، سازشوں کو نظر انداز کرتا ہے اور ریشہ دوانیوں کا فوراً نوٹس نہیں لیتا تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ یہ جرائم اس کے نزدیک جرائم نہیں یا وہ ان جرائم پر گرفت نہیں کرسکتا بلکہ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ بندوں کو آخری حد تک مہلت دیتا ہے۔ یہ مہلت بہرحال مہلت ہے جو ایک دن ختم ہونی ہے۔ اس کے بعد اس کا عدل ظہور میں آئے گا اور یہ عدل بھی اس کی ذات ہی کا ایک پہلو ہے۔ یہ اگر ابھی ظہور میں نہیں آیا ہے تو اس سے کوئی یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ یہ ظہور میں آئے گا ہی نہیں۔ خدا کے کاموں میں دیر ہے اندھیر نہیں، جب اس کی ذات کا یہ پہلو سامنے آئے گا تو ہر شخص پر کھل جائے گا کہ اس سے زیادہ زور آور، اس سے زیادہ بےلاگ اور اس سے بڑا منتقم وقہار کوئی بھی نہیں، اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے اسی پہلو سے یہاں ہوشیار کیا ہے اور آگے واضح ہوگا کہ بار بار ہوشیار کیا ہے۔ ایک دوسری جگہ فرمایا ہے ”ما غرک بربک الکریم“ (اے انسان تجھ کو تیرے رب کریم کے بارے میں کس چیز نے دھوکے میں ڈال رکھا ہے) ، اس میں بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے۔۔ جن کمزور اور منافق قسم کے مسلمانوں کو یہاں تنبیہ فرمائی انہی کا ذکر اسی سورة میں آگے بھی آ رہا ہے۔ اس سے اس آیت کے بعض مخفی گوشوں پر روشنی پڑتی ہے۔ ملاحظہ ہو ”يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا بِطَانَةً مِنْ دُونِكُمْ لا يَأْلُونَكُمْ خَبَالا وَدُّوا مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الآيَاتِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُونَ (118) هَا أَنْتُمْ أُولاءِ تُحِبُّونَهُمْ وَلا يُحِبُّونَكُمْ وَتُؤْمِنُونَ بِالْكِتَابِ كُلِّهِ وَإِذَا لَقُوكُمْ قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا عَضُّوا عَلَيْكُمُ الأنَامِلَ مِنَ الْغَيْظِ قُلْ مُوتُوا بِغَيْظِكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ (119)إِنْ تَمْسَسْكُمْ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِنْ تُصِبْكُمْ سَيِّئَةٌ يَفْرَحُوا بِهَا وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لا يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا إِنَّ اللَّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطٌ (120): اے ایمان والو، اپنے سے باہر والوں کو اپنا محرم راز نہ بناؤ، وہ تمہیں نقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں گے، وہ تمہارے لیے زحمتوں کے آرزو مند ہیں، ان کی زبانوں سے ان کی دشمنی آشکارا ہوچکی ہے اور جو کچھ ان کے دلوں میں ہے وہ اس سے بھی شدید ہے۔ ہم نے تمہیں واضح تنبیہات پہنچا دی ہیں، اگر تم سمجھنے والے لوگ ہو۔ تمہی ہو کہ ان سے محبت رکھتے ہو، وہ تم سے محبت نہیں رکھتے حالانکہ تم پوری کتاب پر ایمان رکھتے ہو۔ اور جب وہ تمہارے سامنے ہوتے ہیں تو کہتے ہیں ہم بھی ایمان لائے ہوئے ہیں اور جب وہ الگ ہوتے ہیں تو غصے تم پر انگلیاں کاٹتے ہیں، کہہ دو کہ تم اپنے اس غصے میں مر جاؤ، اللہ دلوں کے بھیدوں سے باخبر ہے۔ اگر تمہیں کوئی کامیابی حاصل ہوتی ہے تو انہیں بری لگتی ہے اور اگر کوئی گزند تمہیں پہنچ جائے تو اس سے خوش ہوتے ہیں۔ اگر تم ثابت قدم اور تقوی پر قائم رہے تو ان کی چالوں سے تمہیں کوئی نقصان نہ پہنچے گا۔ اللہ ان کے اعمال کا احاطہ کیے ہوئے ہے“ (آل عمران :118-120)
Top