Tadabbur-e-Quran - Al-Ahzaab : 88
وَّ اتَّبِعْ مَا یُوْحٰۤى اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًاۙ
وَّاتَّبِعْ : اور پیروی کریں مَا يُوْحٰٓى : جو وحی کیا جاتا ہے اِلَيْكَ : آپ کی طرف مِنْ رَّبِّكَ ۭ : آپ کے رب (کی طرف) سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ كَانَ : ہے بِمَا : اس سے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو خَبِيْرًا : خبردار
اور پیروی کرو اس چیز کی جو تم پر تمہارے رب کی جانب سے وحی کی جارہی ہے، بیشک اللہ ان تمام چیزوں سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔
واتبع ما یوحی الیک من ربک ان اللہ کان بما تعملون خبیرا و توکل علی اللہ وکفی باللہ وکیلا (2۔ 3) اوپر جو بات منفی اسلوب سے فرمائی گئی ہے وہی بات مثبت پہلو سے ارشاد ہوئی ہے کہ اشرار کی تمام شر انگیزیوں سے بالکل بےپروا ہو کر تم اس وحی کی پیروی کرو جو تمہارے رب کی جانب سے آتی ہے اور یہ اطمینان رکھو کہ تمہارے ہر اقدام و عمل سے اللہ اچھی طرح باخبر رہتا ہے۔ اس آیت میں پہلا خطاب واحد سے ہے اور دوسرا بما تعملون جمع ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہاں آنحضرت ﷺ سے جو خطاب ہے یہ امت کے وکیل کی حیثیت سے ہے۔ جس سے یہ حقیقت واضح ہوئی کہ دین کے معاملے میں یہی روش مسلمانوں کو بھی اختیار کرنی چاہیے۔ ’ و توکل علی اللہ وکفی باللہ وکیلا ‘۔ یعنی جب اللہ تعالیٰ کی ہر بات علم و حکمت پر بھی مبنی ہے اور وہ ہر چیز سے باخبر بھی ہے تو اسی پر بھروسہ رکھو اور اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ اعتماد اور بھروسہ کے لئے اللہ کافی ہے۔ اس کے ہوتے تمہیں کسی دوسرے سہارے کی احتیاج نہیں ہے۔ لفظ وکیل کی وضاحت ہم دوسرے مقام میں کرچکے ہیں کہ س سے مراد وہ ذات ہے جس پر پورا اعتماد کرکے اپنے معاملات اس کے حوالہ کردیے جائیں۔ اللہ تعالیٰ کا مطالبہ بندوں سے یہی ہے کہ وہ خدا کے دیے ہوئے احکام کی ہر حال میں تعمیل کریں اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھیں کہ اس راہ میں جو شکلیں پیش آئیں گی ان سے عہدہ برآہونے کی وہ توفیق بخشے گا۔
Top