Tadabbur-e-Quran - Al-Ahzaab : 10
اِذْ جَآءُوْكُمْ مِّنْ فَوْقِكُمْ وَ مِنْ اَسْفَلَ مِنْكُمْ وَ اِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَ بَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَنَاجِرَ وَ تَظُنُّوْنَ بِاللّٰهِ الظُّنُوْنَا
اِذْ : جب جَآءُوْكُمْ : وہ تم پر آئے مِّنْ : سے فَوْقِكُمْ : تمہارے اوپر وَمِنْ اَسْفَلَ : اور نیچے سے مِنْكُمْ : تمہارے وَاِذْ : اور جب زَاغَتِ الْاَبْصَارُ : کج ہوئیں (چندھیا گئیں) آنکھیں وَبَلَغَتِ : اور پہنچ گئے الْقُلُوْبُ : دل (جمع) الْحَنَاجِرَ : گلے وَتَظُنُّوْنَ : اور تم گمان کرتے تھے بِاللّٰهِ : اللہ کے بارے میں الظُّنُوْنَا : بہت سے گمان
یاد کرو جب کہ وہ تم پر آچڑھے، تمہارے اوپر کی طرف سے بھی اور تمہارے نیچے کی طرف سے بھی، اور جب کہ نگاہیں کج ہوگئیں اور کلیجے منہ کو آنے لگے اور تم اللہ کے باب میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے۔
اذ جاء وکم من فوقکم ومن اسفل منکم واذ زاغت الابصار و بلغت القلوب الحنا جرا وتظنون باللہ الطنونا (10) ’ اذ جاء دکم من فوقکم ومن اسفل منکم مدینہ کے مشرقی سمت بلند، مغربی سمت نشیبی ہے۔ چونکہ دشمن کا حملہ دونوں طرف سے تھا اس وجہ سے فوق اور اسفل دونوں کو حوالہ دیا۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ قبیلہ غطفان وغیرہ کا حملہ مشرق کی طرف سے ہوا تھا اور قریش اور ان کے حلیفوں کی فوجیں مغرب کی سمت سے آئی تھیں۔ ’ واذ راغت الابصار وبلغت القلوب الحنا جر۔ کوئی منظر ہولناک و دہشت ناک ہو تو نگاہ اس پر نہیں ٹکتی۔ عربی میں اس کو ’ زاغ البصر ‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ اسی طرح خوف و دہشت اور پریشانی کی تعبیر کے لئے بلغت القلوب الحناجر کا محاورہ بھی ہے۔ کلیجہ منہ کو آنا، ہماری اپنی زبان میں بھی خوف و دہشت اور گھبراہٹ کی تعبیر کے لئے معروف ہے۔ ’ وتظنون باللہ الظنونا۔ یہ بات اگرچہ عام صیگہ سے فرمائی گئی ہے لیکن اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو ضعفِ ایمان اور نفاق کی بیماری میں مبتلا تھے۔ یہ منظر دیکھ کر ان کے اوسان خطا ہوگئے۔ خدا کی قدرت و نصرت، اس کے وعدوں اور اس کی شانوں کے متعلق اب تک ان کو جو کچھ بتایا اور سکھایا گیا تھا وہ سب ان کے نزدیک مشکوک ہوگیا۔ کلام کے تدریجی ارتقاء سے یہ بات خود واضح ہوجائے گی کہ یہ اشارہ ضعفائے قلوب اور منافقین ہی کی طرف ہے۔ آگے سچے اہل ایمان کی عزیمت و استقامات کی تعریف قرآن نے ان الفاظ میں فرمائی ہے۔ ولما رالمومنون الاحزاب قالو ھذا ماوعدنا اللہ و رسولہ وصدق اللہ ورسولہ زومازادھم الا ایمانا و تسلیما (اور جب مومنوں نے دشمن کی پارٹیوں کو دیکھا تو وہ پکار اٹھے کہ یہ تو وہی صورت حال ہمیں پیش آئی ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کر رکھا تھا اور اللہ اور اس کے رسول کی بات سچی ہوئی، اور اس چیز نے ان کے ایمان اور ان کی اطاعت ہی میں اضافہ کیا۔ جب سچے مسلمانوں کا یہ حال بیان ہوا ہے اور ظاہر ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت ایسے ہی سرفروشوں پر مشتمل تھی تو آیت زیر بحث کا اشارہ انہی لوگوں کی طرف ہوسکتا ہے جو ضعیف الایمان تھے۔ اس بنا پر ہم ان تفسیر روایات کو بالکل بےسروپا سمجھتے ہیں جن میں یہ تاثر دیے کی کوشش کی گئی کہ العیاذ باللہ غزوہ احزاب کے موقع پر ایک آدھ آدمیوں کے سوا اور کوئی شخص مسلمانوں میں عزم و ہمت رکھنے والا نہیں نکلا۔
Top