Tadabbur-e-Quran - Al-Ahzaab : 49
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْهُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَیْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّوْنَهَا١ۚ فَمَتِّعُوْهُنَّ وَ سَرِّحُوْهُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : ایمان والو اِذَا : جب نَكَحْتُمُ : تم نکاح کرو الْمُؤْمِنٰتِ : مومن عورتوں ثُمَّ : پھر طَلَّقْتُمُوْهُنَّ : تم انہیں طلاق دو مِنْ قَبْلِ : پہلے اَنْ : کہ تَمَسُّوْهُنَّ : تم انہیں ہاتھ لگاؤ فَمَا لَكُمْ : تو نہیں تمہارے لیے عَلَيْهِنَّ : ان پر مِنْ عِدَّةٍ : کوئی عدت تَعْتَدُّوْنَهَا ۚ : کہ پوری کراؤ تم اس سے فَمَتِّعُوْهُنَّ : پس تم انہیں کچھ متاع دو وَسَرِّحُوْهُنَّ : اور انہیں رخصت کردو سَرَاحًا : رخصت جَمِيْلًا : اچھی طرح
اے ایمان والو، جب تم مومنہ عورتوں سے نکاح کرو پھر ان کو ہاتھ لگانے سے پہلے ہی طلاق دے دو تو ان کے بارے میں تم پر کوئی عدت واجب نہیں ہے جس کا تمہیں لحاظ کرنا ہو۔ پس ان کو کچھ دے دلا دو اور خوبصورتی کے ساتھ رخصت کردو۔
9۔ آگے کا مضمون۔ آیات 49۔ 52 اس مجموعہ آیات کے پس منظر کو بھی اچھی طرح ذہن نشین کرلیجئے اس لئے کہ اس میں بڑا ایجاز ہے جس کے سبب سے مفسرین کو بڑی الجھنیں پیش آئی ہیں۔ یہ آیات در حقیقت سورة نساء کی آیت 3 پر جس میں عام مسلمانوں کے لئے تحدید ازواج کا حکم بیان ہوا ہے۔ استدراک کی حیثیت رکھتی ہیں۔ نساء کی مذکورہ آیت کے نزول کے بعد جن مسلمانوں کے نکاح میں چار سے زیادہ بیویاں تھیں انہوں نے زائد بیویوں کو طلاق دے دی لیکن حضور ﷺ سے متعلق کسی بیوی کو طلاق دینا ثابت نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت حضور ﷺ کے نکاح میں چار بیویاں تھیں۔ بعد میں جب اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ نے حضرت زینب ؓ کے ساتھ نکاح کیا تو منافقین نے اس پہلو سے بھی اس پر اعتراض کیا کہ انہوں نے اپنے لئے اور دوسروں کے لئے اور، شریعت بنا رکھی ہے۔ ان منافقین کا منہ بند کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس خاص اجازت کی وضاحت فرمائی جو ازواج کے معاملے میں نبی ﷺ کو دی گئی۔ اس اجازتِ خاص کے نمایاں پہلو یہ ہیں : ٭آپ کی وہ ازواج جن کے مہر آپ ادا کرچکے ہیں، بلا استثنا آپ کے لئے جائز کی گئیں۔ ٭مل یمین جو بطورفے آپ کو حاصل ہوں، اگر آپ ان میں سے کسی کو آزاد کرکے ان سے نکاح کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں۔ ٭آپ کے قریبی رشتہ کی خواتین میں سے اگر کسی نے دین کی خاطر اپنے عزیزوں، رشتہ داروں کو چھوڑ کر، آپ کے ساتھ ہجرت کی ہے، آپ ان میں سے بھی کسی سے نکاح کرسکتے ہیں۔ ٭اگر کوئی مومنہ اپنے آپ کو حبہ کردے اور آپ اس کو اپنے نکاح میں لینا چاہیں تو اس کی بھی آپ کو اجازت ہے۔ ٭یہ نکاح چونکہ تمام تر مصلحت ِ دین و ملت کی خاطر ہیں، اس وجہ سے حقوق زوجیت کے معاملے میں آپ پر سے وہ پابندیاں اٹھالی گئیں جو دوسروں پر تھیں۔ ان آزادیوں کے ساتھ حضور ﷺ پر دو پابندیاں بھی عائد کی گئیں جو دوسروں پر نہیں تھیں۔ ٭ایک یہ کہ اس دائرہ سے باہر آپ کوئی نکاح نہیں کرسکتے۔ ٭دوسری یہ کہ ان ازواج کو دوسری ازواج سے بدل نہیں سکتے۔ یہ آزادی اور پابندی جن مصالح پر مبنی ہے چند اصولی باتیں ان سے متعلق بھی سمجھ لیجئے۔ حضور ﷺ نے جتنے نکاح بھی کئے حفظ نفس کے لئے نہیں بلکہ دعوت دین، تالیف قلب، دالدری اور مصالح ملت کی خاطر کیے۔ آیت 24 کے تحت آپ پڑھ آئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جس مشن کی ذمہ داری آپ پر ڈالی تھی اس میں ازواج مطہرات ؓ بھی شریک کی گئی ہیں گویا یہی وہ اصل مقصد تھا جس کی خاطر اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے نبی ﷺ کی معیت کے لئے منتخب فرمایا۔ اس فرض کو ازواجِ مطہرات ؓ نے جس اہتمام اور جس خوبی کے ساتھ انجام دیا اور اس پر ہماری حدیث و سیرت کی کتابیں شاہد ہیں۔ خاص طور پر حضرت عائشہ ؓ ، حضرت ام سلمہ ؓ ، حضرت حفصہ ؓ اور حضرت میمونہ ؓ کا حصہ اس خد مت میں اگر مردوں سے زیادہ نہیں تو ان سے کم بھی نہیں ہے۔ عورتوں سے متعلق نبی ﷺ کی تعلیمات زیادہ تر انہی سیدات ؓ کے ذریعے سے پھیلی ہیں اور انہی کے ذریعے سے پھیل سکتی تھیں۔ حضرت زینب ؓ سے آپ ﷺ نے جن حالات میں اور جن مصالح کے تحت نکاح کیا ان کی تفصیلات آپ پڑھ آئے ہیں۔ انہوں نے ایک اہم معاشرتی اصلاح کی کا طر اپنے بھائی اور دوسرے عزیزوں کی رائے کے خلاف اپنے آپ کو ہدفِ مطاعن بنانا گوارا کیا لیکن حضور ﷺ کی بات نہیں ٹالی۔ ان کی اس قربانی کا اگر کوئی صلہ ہوسکتا تھا تو یہی ہوسکتا تھا کہ حضرت زید ؓ کے طلاق دینے کے بعد حضور ﷺ خود ان کو اپنے رشتہ زوجیت کا شرف بخشیں۔ پھر حضرت زید ؓ کی طرح حضور ﷺ کے ساتھ بھی ان کا نکاح ایک عظیم معاشرتی اصلاح کا ذریعہ بنا اور اس میں بھی ان کو منافقین و منافقات کی یا وہ گوئیوں کا ہدفت بننا پڑا، لیکن انہوں نے اللہ اور رسول کی خاطر یہ تمام باتیں برداشت کیں۔ ازواج مطہرات ؓ میں سے حضرت ام حبیبہ ؓ کے نکاح کا واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے قریش کے ظلم و ستم سے تنگ آکر اپنے شوہر عبید اللہ کے ساتھ حبشہ کی ہجرت کی۔ وہاں ان کو یہ افتاد پیش آئی کہ کچھ عرصہ بعد ان کے شوہر نے عیسائی مذہب اختیار کرلیا۔ اس عام ِ غربت میں انہوں نے اپنے شوہر سے علیحدگی اختیار کرکے تنہائی و بےکسی کی زندگی بسر کرنا گوارا کی لیکن اپن ایمان پر ثابت قدم رہیں۔ ان کی اس عزیمت و استقامت کے صلہ میں حضور ﷺ نے ان کو نکاح کا پیغام دیا۔ ہر شخص اندازہ کرسکتا ہے کہ اس استقامت کا کوئی صلہ اس دنیا میں اگر ہوسکتا تھا تو یہی ہوسکتا تھا کہ حضور ان کو یہ عزت بخشیں۔ حضرت جویریہ ؓ اور حضرت صفیہ ؓ کے ساتھ آپ ﷺ کے نکاح کی نوعیت یہ ہے کہ غزوہ نبی مصطلق اور غزوہ خیبر میں یہ بطور فے حضور ﷺ کے حصہ میں آئیں۔ یہ سرداروں کی بیٹیاں تھیں۔ ان کی خاندانی وجاہت کو ملحوط رکھ کر حضور ﷺ نے ان کو لونڈیوں کی حیثیت سے رکھنا پسند نہیں فرمایا بلکہ ان کو آزاد کرکے ان سے نکاح کرلیا۔ ان نکاحوں کو دینی و سیاسی مصلحت بالکل واضح ہے۔ بعض صحابیات ؓ رسول اللہ ﷺ سے صرف شرفِ نسبت کی خواہشمند تھیں اور وہ اپنے تئیں حضور ﷺ کو ہبہ کردینا چاہتی تھیں۔ اس قسم کی خواتین میں سے حضرت میمونہ ؓ کو یہ شرف حاصل ہوا کہ حضور ﷺ نے ان کی درخواست منظور فرمائی اور روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی اس درخواست کی منظوری میں زیادہ دخل آنحضرت و کے چچا حضرت عباس بن عبد المطلب ؓ کی سفارش کو تھا۔ اس سے ملتا جلتا حال حضرت سورة ؓ کا بھی ہے۔ ان کے حالات شاہد ہیں کہ نبی و کے ساتھ نسبت کے سوا اور کوئی خواہش ان کے اندر نہیں تھی۔ اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوئی کہ حضور ﷺ کے معاملہ کی نوعیت ایسی نہیں تھی کہ دربابِ نکاح و طلاق آپ کو اس تحدید کا پابند کردیا جائے جو عام مسلمانوں کے لئے تھی۔ ایسا کرنے میں بہت سے مصالح کے فوت ہونے کا اندیشہ تھا اس وجہ سے کردیا جائے جو عام مسلمانوں کے لئے تھی۔ ایسا کرنے میں بہت سے مصالح کے فوت ہونے کا اندیشہ تھا اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے ایک ایسا ضابطہ نازل فرمایا جس میں فی الجملہ و سعت بھی ہے تاکہ وہ دینی مصالح ملحوظ رکھے جاسکیں جن کی طرف ہم نے اوپر اشارہ کیا اور ساتھ ہی اس میں حضور ﷺ پر بعض پابندیاں بھی ہیں جو دوسرے مسلمانوں پر نہیں ہیں۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ حضور ﷺ کو جو ازادی بخشی گئی وہ تمام تر مصالح پر مبنی تھی۔ اس روشنی میں آیات کی تلاوت فرمائیے۔ 10۔ الفاظ کی تحقیق اور آیات کی وضاحت یایھا الذین امنوا اذا نکحتم المومنت ثم طلقتمو ھن من قبل ان تمسوھن مماکل علیھن من عدۃ تعدونھا فمتمعھن وسرحوھن سراحا جمیلا (49)rnٓآگے آیت 50 سے یہ بات واضح ہوجائے گی کہ یہاں جو وضاحت فرمائی گئی ہے اس کی نوعیت درحقیقت اس حکم پر استدراک کی ہے جو سورة نساء میں عام مسلمانوں کو تحدید ازواج سے متعلق دیا گیا ہے۔ اصل استدراک سے پہلے یہ آیت بطور تمہید ہے جس میں ایک ضمنی سوال کا جواب دیا گیا ہے کہ اگر کسی نے ایک عورت سے نکاح کیا لیکن رخصتی اور ملاقات کی نوبت آنے سے پہلے ہی اس کو طلاق دے دی تو اس کے معاملے میں عدت کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ یہ سوال خاص طور پر اس زمانے میں اس وجہ سے پیدا ہوا ہوگا کہ تحدید ازواج کے حکم کی تعمیل میں طلاق کے واقعات بکثرت پیش آئے ہوں گے اور طلاق دینے والوں نے زیادہ اولیٰ یہی سمجھا ہوگا کہ اپنی ان منکوحات کو طلاق دیں جن سے ازدواجی تعلقات ابھی قائم نہیں ہوئے ہیں۔ اس آیت نے ان کے لئے نہایت مبنی برعدل سہولت مہیا کردی۔ ایسے لوگوں کو یہ ہدایت نہیں ہوئے ہیں۔ اس آیت نے ان کے لئے نہایت مبنی برعدل سہولت مہیا کردی۔ ایسے لوگوں کو یہ ہدایت فرمائی گئی کہ اس قسم کی عورتوں کے معاملے میں عدت کے لحاظ کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ان کو حسب استطاعت دے دلا کر باعزت طریقہ سے رخصت کردیا جائے۔ اس دینے دلانے کی تفصیل بقرہ کی آیات 236۔ 237 میں گزر چکی ہے۔ وہاں ہم نے ’ سواح جمیل ‘ کی اہمیت بھی واضح کی ہے کہ اسلام میں مطلوب یہ ہے کہ میاں بیوی میں جدائی کی نوبت بھی آئے تو حتی الامکان یہ خوبصورتی کے ساتھ ہو۔ فریقین کے لئے کسی فضحیتے کا موجب نہ ہو۔
Top