Tadabbur-e-Quran - Faatir : 2
مَا یَفْتَحِ اللّٰهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَّحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا١ۚ وَ مَا یُمْسِكْ١ۙ فَلَا مُرْسِلَ لَهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ١ؕ وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ
مَا يَفْتَحِ : جو کھول دے اللّٰهُ : اللہ لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے مِنْ رَّحْمَةٍ : رحمت سے فَلَا مُمْسِكَ : تو بند کرنے والا انہیں لَهَا ۚ : اس کا وَمَا يُمْسِكْ ۙ : اور جو وہ بند کردے فَلَا مُرْسِلَ : تو کوئی بھیجنے والا نہیں لَهٗ : اس کا مِنْۢ بَعْدِهٖ ۭ : اس کے بعد وَهُوَ : اور وہ الْعَزِيْزُ : غالب الْحَكِيْمُ : حکمت والا
اللہ لوگوں کے لئے جس رحمت کا فتح باب کرے تو اس کو کوئی روکنے والا۔ نہیں اور جس کو روک لے تو اس کے بعد کوئی اس کو کھولنے والا نہیں اور وہی حقیقی عزیز و حکیم ہے۔
آیت 2 یہ دلیل بیان ہوئی ہے اس بات کی کہ کیوں خدا ہی شکر کا سزاوار ہے۔ فرمایا کہ اللہ تمہارے لئے جس فضل و رحمت کا بھی دروازہ کھولنا چاہیے وہ اس کو کھول سکتا ہے، کوئی اس کے فضل و رحمت کو روک نہیں سکتا۔ اسی طرح اگر وہ کسی رحمت سے محروم کرنا چاہیے تو کسی کی طاقت نہیں کہ وہ تمہیں اس سے بہرہ مند کرسکے۔ یہی مضمون سورة زمر میں یوں بیان ہوا ہے۔ قل افراء یتم ما تدعون من دون اللہ انی ارادنی اللہ بضر ھل من لشفت ضرہ اواردنی برحمتہ ھل عن ممسکت رحمتہ (الزمر : 38) اللہ کے سوا جن معبودوں کو تم پکارتے ہو کبھی تم نے ان پر غور کیا ہے۔ اگر اللہ مجھے کوئی ضرور پہنچانا چاہے تو کیا وہ اس کے دفع کرنے والے بن سکتے ہیں ! یا اللہ مجھے کسی رحمت سے نوازنا چاہے تو کیا وہ اس کی رحمت کو روک سکتے ہیں ! مقصد یہ ہے کہ جب اصل حقیقت یہ ہے تو فرشتوں اور جنوں کو تم نافع وضار سمجھ کر ان کی عبادت جو کرتے ہو یہ محض تمہاری حماقت ہے۔ نفع و ضرر تمام تر خدا ہی کے اختیار میں ہے اس وہ سے لشکر اور عبادت کا حق دار اتنہاوہی ہے۔ آیت میں ایک ہی چیز (رحمت) کے لئے ضمیر پہلے مونث آئی، پھر اسی کے لئے مذکور آئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک جگہ، لفظ کا لحاظ ہے دوسری جگہ مفہوم کا۔ اس کی متعدد نظریں اس کتاب میں پیچھے گزر چکی ہیں۔ ’ من بعدہ یعنی من بعد امسا کہ۔ آگے اسی سورة میں فرمایا ہے۔ ولئن زالتا ان امھما من احد من بعدہ (41) (اگر وہ دونوں (آسمان و زمین) اپنی جگہ سے ٹل جائیں تو خدا کے بعد کوئی ان کو تھامنے والا نہیں بن سکتا)۔ ’ وھو العزیز الحکیم ‘۔ یعنی اصل غالب و مقتدر وہی ہے۔ وہ کھولتا اور وہی روکتا ہے اور یہ کھولنا اور باندھنا تمام تر اس کی حکمت کے تقاضوں کے تحت ہوتا ہے اس لئے کہ وہ حکیم بھی ہے۔
Top