Tadabbur-e-Quran - Al-Maaida : 30
فَطَوَّعَتْ لَهٗ نَفْسُهٗ قَتْلَ اَخِیْهِ فَقَتَلَهٗ فَاَصْبَحَ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ
فَطَوَّعَتْ : پھر راضی کیا لَهٗ : اس کو نَفْسُهٗ : اس کا نفس قَتْلَ : قتل اَخِيْهِ : اپنے بھائی فَقَتَلَهٗ : سو اس نے اس کو قتل کردیا فَاَصْبَحَ : تو ہوگیا وہ مِنَ : سے الْخٰسِرِيْنَ : نقصان اٹھانے والے
بالآخر اس کے نفس نے اس کو اپنے بھائی کے قتل پر آمادہ کرلیا اور وہ اس کو قتل کرکے نامرادوں میں سے ہوگیا۔
30۔ 31:۔ فَطَوَّعَتْ لَهٗ نَفْسُهٗ قَتْلَ اَخِيْهِ فَقَتَلَهٗ فَاَصْبَحَ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ۔ فَبَعَثَ اللّٰهُ غُرَابًا يَّبْحَثُ فِي الْاَرْضِ لِيُرِيَهٗ كَيْفَ يُوَارِيْ سَوْءَةَ اَخِيْهِ ۭ قَالَ يٰوَيْلَتٰٓى اَعَجَزْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِثْلَ هٰذَا الْغُرَابِ فَاُوَارِيَ سَوْءَةَ اَخِيْ ۚ فَاَصْبَحَ مِنَ النّٰدِمِيْنَ۔ قابیل کی نامرادی : فَطَوَّعَتْ لَهٗ نَفْسُهٗ قَتْلَ اَخِيْهِ ، کے معنی ہوں گے اس کے نفس نے اس کو بالآخر اپنے بھائی کے قتل پر آمادہ کر ہی لیا۔ اس اسلوب بیان سے اس اندرونی کشمکش کا اظہار ہورہا ہے جو اول اول اس ارادۂ قتل سے اس کے اندر پیدا ہوئی۔ انسان کے اندر قدرت نے ایک نفس لوّامہ ودیعت فرمایا ہے جو اس وقت تک کسی ارادۂ جرم کے خلاف احتجاج کرتا ہے جب تک مختلف تاویلوں اور بہانوں سے آدمی اس کی زبان بند نہ کردے۔ قابیل کو بھی اس مرحلے سے گزرنا پڑا لیکن بالآخر اس کے حسد نے اس کو اس ہولناک جرم پر آمادہ کر ہی لیا۔ ابتداء ہر مجرم کو یہ جھجک پیش آتی ہے لیکن جب وہ جرم پر جرم کیے چلا جاتا ہے تو اس کا نفس لوّامہ یا بالفاظ دیگر اس کا ضمیر بالکل مردہ ہوجاتا ہے اور وہ جرائم کے لیے بالکل بےباک ہوجاتا ہے۔ فَاَصْبَحَ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ ، میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اس طرح کی ہر کشمکش انسان کے سامنے آزمائش کا ایک میدان کھولتی ہے جس میں اس کے لیے نامرادی اور فتحمندی دونوں کا امکان موجود ہوتا ہے۔ اگر انسان اس کشمکش میں اپنے نفس کو زیر کرلے تو وہ فتحمند رہتا ہے اور اس کا نفس شکست کھا جاتا ہے اور اگر نفس اس کو زیر کرلے تو اس کا نفس فتحمند رہتا ہے اور وہ خود نامراد ہوجاتا ہے۔ قابیل پر اس کا نفس غالب آگیا اس وجہ سے وہ نامراد ہوا۔ شیطان کوّے کے بھیس میں : فَبَعَثَ اللّٰهُ غُرَابًا۔۔۔ الایۃ : قتل کے بعد قابیل نے، معلوم ہوتا ہے، اپنے بھائی کی لاش یوں پڑی چھوڑ دی تھی، اس کو چھپانے کی کوشش نہیں کی۔ اتنے میں ایک کوّا نمودار ہوا۔ کوّا بڑا سیانا ہوتا ہے۔ اس کی عادت ہے کہ جب وہ کوئی کھانے کی چیز اچکتا ہے اور بروقت اس کو کھانا نہیں چاہتا تو زمین کرید کر یا کسی چیز کے نیچے اس کو ضرورت کے وقت کے لیے چھپا رکھتا ہے۔ اس کوے نے بھی قابیل کے سامنے یہی نمائز کی اور اس طرح گویا اس کو رہنمائی دی کہ وہ بھی اسی طرح اپنے بھائی کی لاش چھپا دے کہ دوسروں کی نظر نہ پڑے اور اس کا جرم افشا نہ ہو۔ کوّکے اس سیانے پن کو دیکھ کر قابیل نے اپنا سر پیٹ لیا کہ اہئے میری بدبختی کہ میں کوّوے بھی گیا گزرا ثابت ہوا کہ یہ تدبیر مجھے نہ سوجھی کہ میں بھی اسی طرح بھائی کی لاش کو ڈھانک دیتا۔ چناچہ انی اس بےوقوفی پر اس کو بڑی ندامت ہوئی۔ قرآن نے اس ٹکڑے سے یہ نمایاں کیا ہے کہ جو خدا سے نہیں ڈرتے وہ خلق سے ڈرتے اور جو خدا کے حکم اور ضمیر کی آواز کی پروا نہیں کرتے وہ کوّے سے الہام حاصل کرتے اور جرم کرنے کے بعد اعتراف اور ندامت کے بجائے اس کو چپھانے کی تدبیریں کرتے ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ کوا شیطان کی مثال ہے۔ شیطان نے پہلے تو قابیل کے نفس کے اندر وسوسہ اندازی کر کے اس کو بھائی کے قتل پر آمادہ کیا اور جب وہ یہ جرم کر گزرا تو کوّے کے واسطے سے اس کو جرم کے چھپانے کی تدبیر سجھائی اور اس طرح اولادِ آدم کو گمراہ کرنے کی جو قسم اس نے کھائی تھی اس کی تکمیل کی راہ میں ایک نہایت کامیاب قدم اس نے اٹھایا۔ ایک سنت الٰہی : یہاں کوّے کو بھیجنے کی نسبت اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف جو فرمائی ہے یہ درحقیقت اس سنت اللہ کی نسبت اپنی طرف فرمائی ہے جس کے تحت یہ فعل ظہور میں آیا۔ اس کی متعدد مثالیں پچھلے صفحات میں بیان ہوچکی ہیں۔ وہ سنت اللہ یہ ہے کہ جب کوئی شخص اللہ کی آیات، اس کے احکام اور اس کی تنبیہات سے اپنے کان اور اپنی آنکھیں بند کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر ایک شیطان مسلط کردیتا ہے جو اس کا ساتھی بن کر اس کو اس کی خواہشات کی وادیوں میں ٹھوکر کھلاتا پھرتا ہے۔ سورة زخر میں اس سنت اللہ کی طرف ان الفاظ میں اشارہ فرمایا ہے۔ " ومن یعش عن ذکر الرحمن نقیض لہ شیطانا فھو لہ قرین : جو خدائے رحمان کے ذکر سے غافل ہوجاتا ہے، ہم اس کے لیے ایک شیطان مقرر کردیتے ہیں جو اس کا شب و روز کا ساتھی بن جاتا ہے) سورة فصلت میں ہے، وقیضنا لہم قرناء فزینوا لہم ما بین ایدیہم وما خلفہم (پس ہم نے ان کے لیے برے ساتھی مقرر کردیے جنہوں نے ان کے پیش و عقب کو خوب مزین کرکے دکھایا) اوپر گزرچکا ہے کہ ہابیل نے قابیل کو بڑی موثر اور دل نشین نصیحتیں بھی کیں اور اپنے قول کیی صداقت روز روشن کی طرح ثابت بھی کردی لیکن اس کا دل ذرا نہ پسیجا۔ ایک ایسے سنگدل کا خدا کی مذکورہ سنت کی زد میں آجانا ایک امر بدیہی ہے۔ عام طور پر مفسرین نے یہ سمجھا ہے کہ کوّا قابیل کو یہ بتانے کے لیے آیا تھا کہ وہ اپنے بھائی کی لاش کس طرح دفن کرے۔ وہ مدتوں اپنے بھائی کی لاش اپنی کمر پر لادے لادے پھرا، لیکن اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا کہ وہ اس کو کیا کرے۔ بالآخر جب لاش سڑ گئی تب خدا نے ایک کوّے کو بھیجا جس نے ایک دوسرے کوّے کو قتل کر کے زمین میں دفنایا تب قابیل کو بھائی کی لاش ٹھکانے لگانے کا طریقہ معلوم ہوا۔ ہمارا خیال ہے کہ ہم نے اوپر جو کچھ عرض کیا ہے اس کے بعد اس عجیب و غریب بات کی تردید کی ضرورت باقی نہیں رہی۔
Top