Tadabbur-e-Quran - Adh-Dhaariyat : 13
یَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ یُفْتَنُوْنَ
يَوْمَ هُمْ : اس دن وہ عَلَي النَّارِ : آگ پر يُفْتَنُوْنَ : الٹے سیدھے پڑینگے
جس دن وہ آگ پر تپائے جائیں گے !
یوم ھم علی النار یفتنون 13 جواب منکرین کی ذہنیت کے مطابق یہ سوال تحقیق کے لئے نہیں بلکہ جیسا کہ اوپر ہم نے اشارہ کیا، انکار اور استہزاء کے لئے تھا، اس وجہ سے قرآن نے جواب ان کی ذہنیت کو پیش نظر رکھ کردیا۔ یہ امر واضح رہے کہ جو لوگ اس طرح کے سوال کرتے تھے وہ اس حقیقت سے ناواقف نہیں تھے کہ اس کے ظہور کا وقت صرف اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے کسی کو اس کا علم نہیں ہے اور اس کا علم نہ ہونے سے اصل حقیقت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اس وجہ سے قرآن نے اس کے وقت اور دن سے تعرض کرنے کے بجائے اس صورت حال کی تصویر ان کے سامنے رکھ دی جس سے اس دن سابقہ پیش آئے گا کہ یہ جزا کا دن اس وقت ظہور میں آئے گا جب یہ آگ پر تیائے جائیں گے۔ مطلب یہ ہے کہ اس کا مذاق اڑاتے ہیں تو اڑالیں لیکن یاد رکھیں کہ اس دن ان کا یہ حشر ہوتا ہے۔ لفظ فتن کی تحقیق اس کے محل میں ہوچکی ہے۔ یہ لفظ جلانے اور تپانے کے معنی میں بھی آتا ہے اور کسی کو امتحان میں ڈال کر جانچنے اور پرکھنے کے معنی میں بھی۔ یہاں یفتنوکن سے دو معنوں کی طرف اشارہ ہو رہا ہے۔ ایک تو جلانے اور تپانے کے معنی کی طرف، دور سے اس حقیقت کی طرف کہ جس آگ پر یہ لوگ تپائے جائیں گے یہ ان شہوات و زخارف کی آگ ہوگی جن سے وہ دنیا میں آزمائے گئے اور جن کی محبت میں گرفتار ہو کر وہ جزا کے دن سے بےپروا ہوئے۔ آگے اس کی وضاحت آرہی ہے۔
Top