Tadabbur-e-Quran - Adh-Dhaariyat : 14
ذُوْقُوْا فِتْنَتَكُمْ١ؕ هٰذَا الَّذِیْ كُنْتُمْ بِهٖ تَسْتَعْجِلُوْنَ
ذُوْقُوْا : تم چکھو فِتْنَتَكُمْ ۭ : اپنی شرارت ھٰذَا الَّذِيْ : یہ وہ جو كُنْتُمْ بِهٖ : تم تھے اس کی تَسْتَعْجِلُوْنَ : جلدی کرتے
چکھو مزا اپنے فتنہ کا، یہی ہے وہ چیز جس کے لئے تم جلدی مچائے ہوئے تھے !
ذوقوا فتنکو ھذا الذی کنتم بہ تسلعجلون 14 لفظ فتنۃ یہاں میرے نزدک اپنے مفعول کی طرف مضاف ہے یعنی دنیا کی وہ چیزیں جو تمہیں فتنہ میں ڈالنے والی بنیں اور جن کے عشق میں مبتلا ہو کر تم آخرت سے برگشتہ ہوئے، اپنی اصی شکل و صورت میں وہ تمہارے سامنے نمایاں ہوگئیں، اب ان کا مزا چکھو۔ یہی ہے وہ چیز جس کے لئے تم جلدی مچائے ہوئے تھے۔ 2۔ ابرو ہوا کے تصرفات میں جزا اور سزا کی شہادت کے پہلو یہاں تھوڑی دیر توقف کر کے اوپر کی قسموں اور ان کے مقسم علیہ کے باہمی تعلق پر مزید غور کر لیجیے تاکہ یہ بات اچھی طرح واضح ہوجائے کہ یہ قسمیں درحقیقت اپنے مقسم علیہ پر دلیل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ سورة کی تمہید میں دو چیزوں کی قسم کھائی گئی ہے اور ان قسموں کے بعد دو دعوے رکھے گئے ہیں قسم ہوائوں کے عجائب تصرفات اور دھاریوں والے بادلوں کی کھائی گئی ہے اور دعویٰ ایک تو یہ کیا گیا ہے کہ جس عذاب کا تم کو ڈراوا دیا جا رہا ہے اس کو جھوٹ نہ سمجھو بلکہ یہ بالکل بیچ ہے۔ دوسرا یہ کہ جس روز جزاء و سزا سے تم کو آگاہ کیا جا رہا ہے اس کو بعید از امکان نہ خیال کرو بلکہ وہ پیش آ کے رہے گا۔ اب دعوے اور دلیل میں مطابقت کے پہلوئوں پر غور کیجیے۔ پہلا دعویٰ یہ ہے کہ انما توعدون لصادق (بےشک جس عذاب کی تم کو وعید سنائی جا رہی ہے وہ بالکل سچ ہے) اس ٹکڑے کی شرح کرتے ہوئے ہم واضح کرچکے ہیں کہ اس سے مراد وہ عذاب ہے جس سے ہر رسول نے اپنی قوم کو ڈرایا کہ اگر اس نے اپنی تکذیب کی روش نہ بدلی تو وہ لازماً عذاب الٰہی کی گرفت میں آجائے گی۔ اس دعوے پر ابرو ہوا کے تصرفات میں شہادت کا پہلو یہ ہے کہ کوئی قوم، خواہ کتنے ہی وسائل و ذرائع اور کتنی ہی قوت و جمعیت کی مالک ہو، وہ اپنے آپ کو خدا کی گرفت سے باہر نہ سمجھے۔ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو تباہ کرنا چاتہا ہے تو اس کے لئے اسے کوئی بڑی مورچہ بندی نہیں کرنی پڑتی بلکہ وہ اپنی ہوائوں اور اپنے بادلوں ہی کے ذریعہ سے جب چاہے اس کو فنا کر دے سکتا ہے۔ یہ جس طرح انسان کے وجود و بقا کے لئے ناگزیر ہیں اسی طرح اسی کو فنا کردینے کے بھی بےپناہ ہیں۔ آگے ت اریخ کی روشنی میں اس دعوے کو ثابت کرنے کے لئے اسی سوروہ میں قوم نوح، عاد، ثمود، قوم لوط اور قوم فرعون کی مثالیں پیش کی ہیں جن میں دکھایا ہے کہ ان قوموں کو بھی اپنی قوت و شوکت پر بڑا ناز تھا۔ اس غرور میں انہوں نے اللہ کے رسولوں کی وعید کا مذاق اڑایا اور مطالبہ کیا کہ جس عذاب کی دھمکی دے رہے ہو وہ لائو، ہم اس کا مقابلہ کرنے کو تیار ہیں۔ بالآخر وہ عذاب ان پر آدھمکا اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ کو کوئی اہتمام نہیں کرنا پڑا۔ وہی ہوا جو زندگی کے لئے ناگزیر ہے ان کے لئے طوفان قیامت بن گئی اور وہی ابر جس کو دیکھ کر وہ خوشی سے ناچنے لگے کہ ھذا عارض ممطرنا (الاحقاف : 24) (یہ ہم کو سیراب کردینے والا بادل ہے) ان کے لئے قہر الٰہی بن گیا۔ یہاں اس اشارے پر قناعت فرمایئے۔ آگے ان قوموں کی تباہی کی تفصیلات آرہی ہیں۔ وہاں قرآن نے دکھایا ہے کہ دنیا کی یہ عظیم قومیں اسی غرور میں مبتلا ہوئیں جس میں قریش مبتلا ہیں بالآخر ان کو اللہ تعالیٰ کی ہوائوں اور اس کے بادلوں ہی نے چشم زدن میں خس و خاشاک بنا کر اڑا دیا اور وہ ان کے مقابل میں ایک ملحہ کے لئے بھی نہ ٹک سکیں۔ اللہ تعالیٰ کے یہ لشکر آج بھی موجود اور اس کے حکم کے منتظر ہیں۔ تاریخ ان کے کارناموں پر شاہد ہے ! اسی طرح دوسرے دعوے یعنی جزا اور سزا کے حق ہونے پر بھی یہ متعدد پہلوئوں سے شاہد ہیں۔ ہوا اور بادلوں کے باہمی تفاعل سے اللہ تعالیٰ کی قدرت، حکمت، رحمت اور ربوبیت کی وجو شانیں ظاہر ہوتی ہیں ان سے قرآن نے جگہ جگہ متعد بنیادی حقائق پر استدلال کیا ہے۔ ان کے اندر کوئی ایک نشانی نہیں ہے بلکہ گوناگوں نشانیاں موجود ہیں بشرطیکہ انسان ان پر غور کرے۔ اس باب میں ایک جامع آیت یہ ہے۔ فرمایا ہے۔ ان فی خلق السموت والارض واختلاف الیل والھار وا لفلک التی تجری فی البحر بما ینفع الناس وما انزل اللہ من السمآء من مآء فاحیا بہ الارض بعد مر تھا وبث فیھا من کل دآبۃ وتصریف الریح والسحاب المسخر بین السمآء والارض لایت تقوم یعق لون (البقرۃ 164:) بے شک آسمانوں اور زمین کی خلفت، رات اور دن کی گردش اور ان کشتیوں میں جو سمندر میں لوگوں کے نفع کی چیزیں لے کر چلتی ہیں اور اس پانی میں جو اللہ نے آسمان سے اتارا پس اس سے زمین کو اس کے مردہ ہونے کے بعد زندہ کردیا اور اس میں ہر قسم کے جاندار پھیلائے اور ہوائوں کی گردش میں اور ابدلوں میں جو آسمان و زمین کے درمیان مخسر ہیں ان لوگوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں جو قعل سے کام لینے والے ہیں۔ اس آیت میں ہوائوں اور بادلوں کے تصرفات کا ذکر خاص اہتمام کے ساتھ ہوا ہے اور آخر میں فرمایا ہے کہ ان کے اندر غور کرنے والوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں۔ یہ نشانیاں توحید، معاد، رسالت ہر چیز پر ہیں جن کی وضاحت ان کے محل میں ہوچکی ہے۔ یہاں ہم صرف ان نشانیوں کا بالا جمال حوالہ دیں گے جن کا تعلق مقسم علیہ یعنی جزا و سزا سے ہے۔ جزاء سزا سے متعلق ایک بہت بڑا شبہ منکروں نے یہ پیش کیا کہ مرجانے اور سڑ گل جانے کے بعد دوبارہ زندہ کر کے اٹھایا جانا بعید از قیاس ہے۔ یہ شبہ پچھلی سورة میں تفصیل سے زیر بحث آچکا ہے۔ اس شب ہے کی تردید میں قرآن نے جو دلیلیں پیش کی ہیں ان میں ایک نمایاں دلیل، جس کا ذکر گونا گوں اسلوبوں سے بار بار ہوا ہے، ابرو ہوا کے تصرفات ہی سے تعلق رکھنے والی ہے۔ معاد کو مستبعد سمجھنے والوں کو جگہ جگہ یہ جواب دیا گیا ہے کہ تم آئے دن اس دنیا میں قارت کا یہ کرشمہ دیکھتے ہو کہ زمین بالکل چٹیل اور بےآب وگیاہ ہوتی ہے اور اس کے کسی گوشے میں بھی زندگی اور روئیدگی کا کوئی نشان نہیں ہوتا کہ دفعتہً کسی گوشے سے ہوا اٹھتی ہے، وہ بادلوں کو ہانک کر لاتی ہے، ان کو ایک خاص علاقے کے افق پر تہ بہ تہ جماتی ہے۔ پھر بادلوں سے مینہ برسنے لگتا ہے اور دیکھتے دیکھتے تمام علاقہ جل تھل ہوجاتا ہے اور چند دن بھی گزرنے نہیں پاتے کہ وہی رقبہ جو بالکل مردہ تھا زندگی سے معمور ہو کر لہلہانے لگتا ہے۔ جس قدرت کی یہ شانیں آئے دن دیکھتے ہو تمہارے مرکھپ جانے کے بعد اگر وہ تمہیں زندہ کرنا چاہے گی تو یہ کام اس کے لئے کیوں ناممکن ہوجائے گا ! اسی طرح ابرو ہوا کے تصرفات سے اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں اپنی ربوبیت کا جو اہتمام فرمایا ہے اس سے بھی جگہ جگہ جزاء و سزا کے لازم ہونے پر استدلال فرمایا ہے۔ اس کی تقریر بالا جمال یوں ہے کہ دیکھتے ہو کہ آسمان بھی بند ہوتا ہے اور زمین بھی بند ہوتی ہے۔ نہ آسمان پانی برساتا اور نہ زمین کوئی چیز اگاتی ہے اللہ تعالیٰ کسی جانب سے سازگار ہوائیں چلاتا ہے جو بوجھل بادلوں کو لاد کر لاتی ہیں اور زمین کو سیراب کردیتی ہیں جس سے زمین اپنے خزانے اگلنا شروع کردیتی ہے۔ تمہارے باغ لہلہا اٹھتے ہیں، تمہارے کھیت شاداب ہوجاتے ہیں، تمہارے میدان سبزہ سے بھر جاتے ہیں، جن سے تم بھی بہرہ مند ہتے ہو اور تمہایر جانور بھی غور کرو کہ جس خدا نے تمہاری پرورش کا یہ اہتمام فرمایا ہے کہ اپنے آسمان و زمین اور اپنے ابرد ہوا سب کو تمہاری خدمت میں مصروف کر رکھا ہے کیا وہ تم کو اپنے باغوں اور چمنوں میں عیش کرنے کے لئے اسی طرح چھوڑے رکھے گا، کوئی ایسا دن نہیں لائے گا جس میں وہ دیکھے کہ کس نے اس کی نعمتوں کا حق پہچانا اور شکر گزاری کی زندگی بسر کی اور سک نے اس کی بخشی ہوئی نعمتوں کو اسی کے خلاف بغاوت کے لئے استعمال کیا ! ہر نعمت کا یہ حق ہے کہ اس کا شکر ادا کیا جائے اور ہر نعمت کے ساتھ مسئولیت کا شعور اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت کے اندر ودیعت فرمایا ہے۔ اس شعور سے عاری صرف وہی لوگ ہوتے ہیں جو اپنی فطرت کو بالکل مسخ کرلیتے ہیں۔ اسی طرح ابرو ہوا کے تصرفات سے اللہ تعالیٰ نے اپنے اقنون مکافات پر بھی شہادت پیش کی ہے کہ انہی ہوائوں اور بادلوں کو دیکھتے ہو کہ اللہ تعالیٰ ایک قوم کے لئے رحمت بنا دیتا ہے اور دوسری قوم کے لئے عذاب۔ انہی ہوائوں کے تصرف سے اس نے حضرت موسیٰ ؑ اور ان کی قوم کو جات بخشی اور ان یہ کی گردش سے رفعون اور اس کے لشکر کو غرق کردیا۔ اس سے ثابت ہوا کہ اس خلق کا خالق دیان ہے۔ وہ نیکیوں اور بدوں کیساتھ ایک ہی معاملہ نہیں کرے گا بلکہ ہر ایک کیساتھ اپنے عدل اور اپنی رحمت کے تقاضوں کے مطابق معاملہ کرے گا اوپر ہوائوں کی یہ صفت گویا ان کے خالق کی صفت عدل کا مظہر ہے جس سے اس بات کی شہادت ملتی ہے کہ ایک دن ایسا لازماً آئے گا جس میں اللہ تعالیٰ تقسیم امر فرمائے گا جو نجات و رحمت کے حقدار ہوں گے ان کو رحمت و مغفرت سے نوازے گا اور جو عذاب و عقاب کے سزا وار ہوں گے ان کو جہنم میں جھونک دے گا۔
Top