Tadabbur-e-Quran - At-Tur : 35
اَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَیْرِ شَیْءٍ اَمْ هُمُ الْخٰلِقُوْنَؕ
اَمْ خُلِقُوْا : یا وہ پیدا کیے گئے مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ : بغیر کسی چیز کے اَمْ هُمُ الْخٰلِقُوْنَ : یا وہ خالق ہیں۔ بنانے والے ہیں
کیا یہ بغیر کسی خالق ہی کے پیدا ہوگئے ہیں یا یہ خود ہی خالق ہیں !
(امر خلقوا من غیر شی ام ھم الخلقون ام خلقوا السموات والارض بل لا یوقنون (35۔ 36) (معترنین سے چند سوالات)۔ مکذبین کے اعتراضات و اتہامات کے جواب دینے کے بعد اب یہ ان سے چند سوالات کیے گئے ہیں۔ کہ اگر وہ عذاب اور آخرت کے منکر ہیں تو یہ بتائیں کہ کیا وہ بغیر خالق ہی کے پیدا ہوگئے ہیں یا خود ہی اپنے خالق ہیں ؟ نیز یہ بھی بتائیں کہ کیا آسمانوں اور زمین کو انہوں نے پیدا کیا ہے ؟ یہ امر واضح رہے کہ مشرکین عرب اپنا اور تمام آسمان و زمین کا خالق اللہ تعالیٰ ہی کو مانتے تھے۔ وہ اپنے مزعومہ شرکاء میں سے کسی کو کسی چیز کا خالق نہیں مانتے تھے۔ یہ سوال قرآن نے ان کے سامنے رکھ کے گویا ان سے یہ پوچھا ہے کہ جب وہ اپنا اور آسمان و زمین کا خالق اللہ تعالیٰ ہی کو مانتے ہیں تو اس کے عذاب اور اس کے روز جزاء و سزا کو کیوں بعید از امکان سمجھتے ہیں ؟ کیا ان کا گمان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک مرتبہ ان کو پیدا کر کے اب دوبارہ پیدا کرنے سے عاجز ہوگیا ؟ اگر وہ ایسا سمجھتے ہیں تو یہ ایک کھلی ہوئی حماقت ہے، جو پہلی بار پیدا کرنے پر قادر ہوا وہ دوسری بار پیدا کرنے پر بدرجہ ادنیٰ قادر ہوگا۔ اسی طرح وہ یہ بھی سوچیں کہ جب وہ خود اپنے خالق نہیں ہیں بلکہ کسی اور نے ان کو پیدا کیا اور ان کی معاش و معیشت کا سامان کیا ہے تو کیا یہ ممکن ہے کہ وہ ان کو یونہی چھوڑے رکھے اور کسی دن ان سے یہ نہ پوچھے کہ اس نے ان کو جس مقصد کے لیے پیدا کیا تھا اس کو انہوں نے پورا کیا یا نہیں ؟ علیٰ ہذا القیاس وہ یہ بھی سوچیں کہ جس زمین پر اور جس آسمان کے نیچے وہ رہتے ہیں اور جن کو گونا گوں نعمتوں سے وہ متمتع ہوتے ہیں، در آنحالیکہ یہ زمین ان کی پیدا کی ہوئی ہے نہ آسمان اور نہ ان کے درمیان کی نعمتیں تو کیا جس نے ان کو پیدا کیا ہے اس کا کوئی حق ان پر قائم نہیں ہوتا اور اس کے بنائے ہوئے اس گھر میں اپنے رویے سے متعلق وہ اس کے آگے جوابدہ نہیں ہونگے ؟ اسی طرح وہ یہ بھی سوچیں کہ جب نہ زمین ان کی پیدا کی ہوئی ہے نہ آسمان تو آخر کس ہوتے پر آسمان و زمین کے خالق سے اپنے کو وہ بےخوف و مامون سمجھتے ہیں۔ وہ جب چاہے زمین کو ذرا سا ہلا دے اور یہ بالکل بےنام و نشان ہو کے رہ جائیں، اس طرح جب چاہے آسمان سے طوفان بھیج دے، اولے برسا دے، پتھرائو کر دے اور چشم زدن میں ان کو صفحہ ہستی سے مٹا دے۔ (اصل علت انکار)۔۔ (بل لا یوقنون)۔۔ یہ ان کے اعراض و افکار کی اصل علت سے پردہ اٹھایا ہے کہ یہ ان تمام اصولی باتوں کو تو مانتے ہیں جو آخرت اور جزاء و سزا کو لازم ٹھہراتی ہیں، ان میں سے کسی بات کے انکار کی وہ جرأت نہیں کرسکتے لیکن اس بات پر وہ یقین نہیں رکھتے کہ فی الواقع وہ عذاب کے مستحق ہیں اور اگر انہوں نے اپنی روش نہ بدلی تو ایک دن وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کی گرفت میں آجائیں گے۔ یہاں یوقنون کا مفعول بالاخرۃ، یا بعذاب بر بنائے قرینہ محذوف ہے۔ ہم یہ حقیقت جگہ جگہ واضح کرتے آ رہے ہیں کہ مشرکین قریش قیامت کے صریح منکر نہیں تھے اس کو وہ ایک نہایت مستبعد چیز سمجھتے تھے، ان کا خیال یہ تھا کہ قیامت اور عذاب وثواب کا قصہ اول تو محض ایک وہم ہے، ثانیاً اس کی کچھ حقیقت ہے بھی تو یہ اتنی دور کی چیز ہے کہ اس کے لیے ابھی سے فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ثالثا ًاس کا مرحلہ بالفرض آیا بھی تو ہمارا معاملہ ہمارے دیوتائوں سے متعلق ہوگا، وہ اپنی سفارش سے ہمیں اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بچا ہی لیں گے۔ اسی طرح وہ اس عذاب پر بھی یقین نہیں رکھتے تھے جس سے قرآن ان کو بصورت تکذیب اس دنیا میں آگاہ کر رہا تھا۔ وہ اپنی موجودہ خوشحالی کو اپنے عقیدہ و عمل کی صحت کی دلیل بنائے بیٹھے تھے۔ ان کا گمان یہ تھا کہ اگر فی الواقع وہ خدا کے غضب کے سزا وار ہوتے۔ جیسا کہ پیغمبر ﷺ اور ان کے ساتھ کہتے ہیں، تو ان کا حال دنیوی رفاہیت کے اعتبار سے پیغمبر ﷺ اور ان کے ساتھیوں سے بہتر کیوں ہوتا ؟ پھر تو صورت ِ حال اس کے بالکل برعکس ہونی تھی۔ ان کی اس ذہنی حالت پر غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ اصلاً یہ عدم یقین ہی کی صورت ہے۔ اصل حقیقت سے تو ان کے لیے فرار کی گنجائش تھی نہیں۔ اس کے تمام مقدمات ثابت اور معلوم تھے۔ نفس، آفاق، تاریخ اور فلسفہ تاریخ کے تمام شواہد اس کے حق میں موجود تھے اور قرآن نے وہ سب ان کے سامنے رکھ بھی دیئے تھے لیکن چونکہ اس کو تسلیم کرنا ان کی خواہش کے خلاف تھا اس وجہ سے وہ جان کر انجان بنتے تھے، یہ یقین نہیں رکھتے تھے کہ فی الواقع یہ چیز ایک دن پیش آکے رہے گی۔ مزید غور کیجئے تو یہ حقیقت بھی آپ کے سامنے آئے گی کہ عدم یقین کی اس بیماری میں جس طرح قریش مبتلا تھے اسی طرح اس زمانے کے بہت سے مسلمان بھی مبتلا ہیں، ان کو قیامت اور جزاء و سزا سے انکار تو نہیں ہے لیکن ان کی زندگی شاہد ہے کہ ان کو اس کا یقین نہیں ہے اور ان کے اس عدم یقین کے اسباب کا تجزیہ کیجئے تو معلوم ہوگا کہ یہ بھی اسی طرح کی کسی نہ کسی غلط فہمی کے شکار ہیں جس طرح کی غلط فہمیوں میں مشرکین مبتلا تھے۔
Top