Tadabbur-e-Quran - An-Najm : 39
وَ اَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰىۙ
وَاَنْ لَّيْسَ : اور یہ کہ نہیں لِلْاِنْسَانِ : انسان کے لیے اِلَّا مَا سَعٰى : مگر جو اس نے کوشش کی
اور یہ کہ انسان کے لیے وہی ہے جو اس نے کمائی کی ہو گی
(وان لیس للانسان الا ما سعی وان سعیہ سوف یری ثم یجزنہ الجزاء الاوفی (39، 41) یہ اسی اوپر والی بات کی شرح مزید ہے کہ یہ حقیقت بھی اس کے ساتھ واضح کردی گئی تھی کہ ہر انسان خدا کے ہاں صرف اپنی ہی محنت کا حاصل پائے گا، یہ نہیں ہوگا کہ نیکی تو کسی نے کی اور اس کا پھل کوئی اور کھائے، یا بدی تو زید نے کی اور اس کی سزا بکر بھگتے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر تمہارے آباء و اجداد بڑے نیک تھے تو انکی نیکی کا صلہ انہی کو ملے گا، یہ نہیں ہوگا کہ ان کے اعمال کے صلہ میں تم جنت میں جا براجو۔ یہی اصول دوسرے الفاظ میں یوں بھی بیان ہوا ہے۔ (تلک امۃ قد خلت لھا ما کسبت ولکم ما کسبتم) (البقرۃ : 134) (یہ ایک گروہ تھا جو گزر چکا ہے، اس کو ملے گا جو اس نے کہا یا اور تمہیں ملے گا جو تم کمائو گے) اگر نیک باپ کے اعمال کے صلہ میں اس کی اولاد جنت میں جاسکتی تو حضرت نوح ؑ سے زیادہ نیک کون ہوسکتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کے باوجود ان کے بیٹے کو نہیں بخشا۔ اسی طرح حضرت ابراہیم ؑ جیسے خلیل اللہ نے اپنے باپ کے لیے دعا فرمائی لیکن وہ بھی قبول نہیں ہوئی۔ حضرت لوط ؑ کی بیوی بھی ایک جلیل القدر پیغمبر کی بیوی تھی لیکن اللہ تعالیٰ کا قانون ایسا بےلاگ ہے کہ ایک پیغمبر کی بیوی ہونا اس کے کچھ کام نہ آیا۔ اس کے برعکس فرعون کی بیوی اللہ تعالیٰ کے ایک بہت بڑے دشمن کی بیوی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے سورة تحریم میں نہایت شاندار الفاظ میں اس کی تعریف فرمائی۔ باپ بیٹے اور میاں بیوی کے رشتے سب سے زیادہ محبوب رشتے ہیں اور پیغمبروں سے زیادہ خدا کا کوئی مقرب نہیں ہوسکتا لیکن آپ نے دیکھ لیا کہ جن کے پاس اپنی نیکی کا توشہ موجود نہیں تھا وہ ان رشتوں سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکے تو تابہ دیگراں چہ رسد !۔ (دوسرے کی نیکی کے کام آنے کی صورتیں)۔ آدمی کو دوسرے کی نیکی سے خدا کے ہاں کوئی فائدہ دو صورتوں میں پہنچنے کی توقع ہے۔ ایک یہ کہ یہ نیکی ایمان کے رشتہ محبت پر مبنی ہو۔ مثلاً ایک مومن اپنے دوسرے مومن بھائی کے لیے دعا کرے تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو قبول فرمائے۔ دوسری یہ کہ آدمی کو بلا واسطہ یا بالواسطہ اس نیکی میں کوئی دخل ہو، مثلاً یہ کہ اس نے اس کی تعلیم دی ہو یا اپنے عملی نمونہ سے اس کی مثال قائم کی ہو یا اس کے وسائل مہیا کرنے میں کسی نوع سے اس کا حصہ رہا ہو۔ اگر اس طرح کا کوئی دخل اس نیکی میں اس کا ہے تو یہ بھی در حقیقت ایک طرح سے اس کی سعی و کسب ہی میں داخل اور اس کے لیے یہ ایک خیر جاری ہے۔ (اشتراکی ذہن کے لوگوں کا ایک بےبنیاد استدلال)۔ بعض اشتراکی ذہن کے لوگ اس آیت سے یہ استنباط کرتے ہیں کہ قرآن اس اصول کو تسلیم کرتا ہے کہ ہر شخص کو صرف اس کی محنت کی بقدر ہی ملنا چاہیے، لیکن یہ آیت جس موقع و محل میں ہے اس سے یہ استنباط اپنی ذہانت کا بالکل بےجا استعمال ہے۔ اس وجہ سے یہاں ہم ایک غیر متعلق مسئلہ سے تعرض نہیں کرنا چاہتے۔ البتہ نفس اشتراکیت کے بنیادی فلسفہ پر اس کے محل میں ہم نے بحث کی ہے اور آگے بھی موزوں مقامات پر اس کے بعض پہلوئوں پر انشاء اللہ ہم روشنی ڈالیں گے۔ بس اتنی بات یہاں یاد رکھنی چاہیے کہ اس دنیا کا نظام امتحان و آزمائش کے اصول پر مبنی ہے اور آخرت میں معاملات عدل و انعام کے اصول پر طے ہوں گے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے کسی کو اس کے حق المحنت کے طور پر کوئی چیز نہیں دی ہے بلکہ کسی کو کم دیا کسی کو زیادہ اور اس طرح دونوں کے صبر و شکر کا امتحان کیا ہے۔ آخرت میں ان لوگوں کو ان کی نیکی کا صلہ ملے گا جو اس امتحان میں پورے اتریں گے اور وہ لوگ محروم رہیں گے جو امتحان میں ناکام رہے۔ ان کا یہی ناکامی ان کو جہنم میں لے جائے گی، اس لیے کہ اس طرح کے ناکاموں کا ٹھکانا آخرت میں جہنم ہی ہے۔ (وان سعیہ سوف یری ثم یجزنہ الجزاء الاوفی)۔ یعنی کوئی اس مغالطے میں نہ رہے کہ یہ کوئی ہوائی بات ہے بلکہ ہر شخص نے جو کچھ کمائی کی ہوگی وہ جلد اللہ تعالیٰ کے ملاحظے میں آئے گی اور پھر اس کو پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ یہ اہل ایمان کے لیے تسلی اور منکرین جزاء و سزا کے لیے تنبیہ ہے کہ اہل ایمان مطمئن رہیں کہ ان کی رائی کے دانے کے برابر نیکی بھی رائیگاں نہیں جائے گی اور منکرین بھی آگاہ رہیں کہ ان کی چھوٹی سے چھوٹی بدی بھی نظر انداز نہیں کی جائیگی۔
Top