Tafseer-e-Baghwi - Al-Muminoon : 25
هُوَ الَّذِیْۤ اَخْرَجَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ مِنْ دِیَارِهِمْ لِاَوَّلِ الْحَشْرِ١ؔؕ مَا ظَنَنْتُمْ اَنْ یَّخْرُجُوْا وَ ظَنُّوْۤا اَنَّهُمْ مَّانِعَتُهُمْ حُصُوْنُهُمْ مِّنَ اللّٰهِ فَاَتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ حَیْثُ لَمْ یَحْتَسِبُوْا١ۗ وَ قَذَفَ فِیْ قُلُوْبِهِمُ الرُّعْبَ یُخْرِبُوْنَ بُیُوْتَهُمْ بِاَیْدِیْهِمْ وَ اَیْدِی الْمُؤْمِنِیْنَ١ۗ فَاعْتَبِرُوْا یٰۤاُولِی الْاَبْصَارِ
هُوَ : وہی ہے الَّذِيْٓ : جس نے اَخْرَجَ : نکالا الَّذِيْنَ : جن لوگوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا مِنْ : سے، کے اَهْلِ الْكِتٰبِ : اہل کتاب مِنْ دِيَارِهِمْ : ان کے گھروں سے لِاَوَّلِ الْحَشْرِ ڼ : پہلے اجتماع (لشکر) پر مَا ظَنَنْتُمْ : تمہیں گمان نہ تھا اَنْ يَّخْرُجُوْا : کہ وہ نکلیں گے وَظَنُّوْٓا : اور وہ خیال کرتے تھے اَنَّهُمْ : کہ وہ مَّانِعَتُهُمْ : انہیں بچالیں گے حُصُوْنُهُمْ : ان کے قلعے مِّنَ اللّٰهِ : اللہ سے فَاَتٰىهُمُ : تو ان پر آیا اللّٰهُ : اللہ مِنْ حَيْثُ : جہاں سے لَمْ يَحْتَسِبُوْا ۤ : انہیں گمان نہ تھا وَقَذَفَ : اور اس نے ڈالا فِيْ قُلُوْبِهِمُ : ان کے دلوں میں الرُّعْبَ : رعب يُخْرِبُوْنَ : وہ برباد کرنے لگے بُيُوْتَهُمْ : اپنے گھر بِاَيْدِيْهِمْ : اپنے ہاتھوں سے وَاَيْدِي : اور ہاتھوں الْمُؤْمِنِيْنَ ۤ : مومنوں فَاعْتَبِرُوْا : تو تم عبرت پکڑو يٰٓاُولِي الْاَبْصَارِ : اے نگاہ والو
وہی ہے جس نے نکالا ان لوگوں کو جنہوں نے اہل کتاب میں سے کفر کیا، ان کے گھروں سے حشر اول کے لیے، تمہارا گمان نہ تھا کہ وہ کبھی اپنے گھروں سے نکلیں گے اور ان کا گھمنڈ یہ تھا کہ ان کے قلعے ان کو اللہ کی پکڑ سے بچائے رکھیں گے تو اللہ قہر ان پر وہاں سے آدھمکا جہاں سے ان کو گمان بھی نہیں ہوا۔ اور اس نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا۔ وہ اپنے گھروں کو اجاڑ رہے تھے خود اپنے ہاتھوں سے بھی اور مسلمانوں کے ہاتھوں سے بھی۔ پس عبرت حاصل کرو اس سے اے آنکھیں رکھنے والو !۔۔
(ھو الذی اخرج الذین کفروا من اھل الکتب من دیار ھم لاول الحشر ما ظننتم ان یحرجوا وظنوا انھم ما نعتھم حصونھم من اللہ فاتھم اللہ من حیث لم یحتسبو وقذن فی قلوبھم الرغب یخربون بیوتھم بایدیھم وایدی المومنین فاعتبروا یاولی الابصار) (2)۔ (بنی نفیر کی غدامی اور ان کا حشر)۔ (الذین کفروا من اھل الکتب) سے مراد مفسرین کے نزدیک یہود بنی نفیر ہیں جو مدینہ منورہ کے قریب آباد تھے۔ بخاری ؒ کے بیان کے مطابق مختصراً ان کا واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے آنحضرت ﷺ کے ساتھ اگرچہ صلح دامن کا معاملہ کر رکھا تھا لیکن بدر کے چھٹے مہینہ معاہدے کے خلاف انہوں نے اسلام کے دشمنوں سے ساز باز بھی کی اور آنحضرت ﷺ کے قتل کی ایک ناکام سازش کے بھی مرتکب ہوئے۔ ان کے اس جرم کی پاداش میں آپ نے ان کو مدینہ سے نکل جانے کا حکم دیا۔ پہلے تو وہ اس حکم کی تکمیل پر آمادہ ہوگئے لیکن بعد میں مشہور منافق عبد اللہ بن ابی نے انہیں اکسایا کہ میرے دو ہزار آدمی تمہارے ساتھ ہیں نیز قریش اور غطفان بھی تمہاری حمایت کریں گے، تم نکلنے سے انکار کر دو۔ عبد اللہ بی ابی کی ان باتوں سے وہ اس کے چکمہ میں آگئے اور نکلنے سے انکار کردیا۔ بالآخر آنحضرت ﷺ نے ان پر فوج کشی کی۔ اس وقت نہ بنو قریظہ نے ان کا ساتھ دیا نہ قریش اور غطفان نے، ناچارا نہیں آنحضرت ﷺ کے حکم کی تعمیل کرنی پڑی۔ آپ نے ازراہ عنایت یہ اجازت انہیں دے دی کہ جتنا سامان وہ اونٹوں پر لے جاسکتے ہیں اتنا لے جائیں۔ چناچہ وہ جتنا سامان لے جاسکے لے کر خیبر اور اذرعات چلے گئے۔ ان کی باقی املاک و جائیداد پر آپ ﷺ نے قبضہ کرلیا۔ (لاول الحشر)۔ یعنی ان کا یہ اخراج پہلے حشر کے طور پر ہوا۔ اس کے اندر یہ تنبیہ ہے کہ اس کے بعد انہیں اسی طرح کے حشر سے دو چار ہونا پڑے گا، چناچہ حضرت عمر ؓ کے عہد میں انہیں وہاں سے بھی نکلنا پڑا اور سب سے بڑا حشر قیامت کا حشر آگے آنے والا ہے۔ (منافقوں سے خطاب)۔ (ماظنتم ان یخرجوا وظنوا انھم ما نعتھم حصونھم من اللہ)۔ یہ خطاب انہی منافقین سے ہے جن کا ذکر پچھلی سورة میں گزر چکا ہے۔ فرمایا کہ تم کو ان کی قوت و جمعیت اور ان کے حلیفوں کی حمایت و نصرت پر بڑا اعتماد تھا، تم سمجھے بیٹھے تھے کہ انہیں یہاں سے ہلایا نہیں جاسکے گا اور خود ان کو بھی اپنے قلعوں اور اپنی گڑھیوں پر بڑا ناز تھا کہ بھلا کسی کی مجال ہے کہ وہ ان سے دو بدو ہونے کی جرأت کرسکے لیکن دیکھ لو، ان کا غرور کس طرح پامال ہوا۔ (مغروروں ذہنیت)۔ (من اللہ) میں عربیت کے قاعدے کے مطابق مضات مخدوف ہے یعنی (من باس اللہ) یا (من عذاب اللہ یا من بطش اللہ) مطلب یہ ہے کہ انہوں نے قلعے اور گڑھیاں بنا لیں تو اس زعم میں مبتلا ہوگئے کہ وہ صرف انسانوں ہی سے نہیں بلکہ خدا کی پکڑ سے بھی مامون ہوگئے۔ یہ مغروروں کی ذہنیت کی بالکل صحیح تصویر ہے۔ جن کو اس دنیا میں قوت و شوکت حاصل ہوجاتی ہے وہ سمجھتے ہیں کہ بھلا ان کے قلعہ کے اندر کہاں سے کوئی رخنہ پیدا ہوسکتا ہے ! یہاں تک کہ اگر اللہ کا کوئی بندہ ان کو خدا کی پکڑ سے بھی ڈرائے تو بھی ان کو سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ ان کے اس محفوظ حصار کے اندر خدا کدھر سے آجائے گا ! (حملہ ہے)۔ (فاتھم اللہ من حیث لم یحسبوا) یعنی انہوں نے تو اپنی دانست میں اپنے قلعوں کے اندر خدا کے در آنے کے لیے بھی کوئی جگہ نہیں چھوڑی تھی لیکن خدا وہاں سے ان پر آ دھمکا جہاں سے ان کو سان گمان بھی نہ تھا۔ (وتذف فی قلوبھم الرعب) یہ نشان دہی فرمائی ہے کہ خدا نے کدھر سے ان پر تاخت کی۔ فرمایا کہ وہ اپنے ارد گرد اینٹوں اور پتھروں کی دیواریں چن کر سمجھے کہ خدا کی پکڑ سے باہر ہوگئے لیکن اللہ نے ان کی دیواریں ہٹانے کی بھی ضرورت نہیں سمجھی بلکہ براہ راست ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا جس کا اثر یہ ہوا کہ وہ قلعے گڑھیاں رکھتے ہوئے ایسے مرعوب ہوئے کہ اپنے بنائے ہوئے گھروں کو انہوں نے خود اپنے ہاتھوں اجاڑا۔ یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ اصل طاقت اسلحہ اور قلعوں کی دیواروں کے اندر نہیں بلکہ دلوں کے اندر ہوتی ہے جو اللہ پر ایمان سے پیدا ہوتی ہے۔ اگر یہ طاقت موجود ہو تو فی الواقع بےتیغ بھی سپاہی لڑتا ہے اور اگر یہ نہ ہو تو ایٹمی آلات کی بڑی سے بڑی مقدار بھی بےسود ہے بلکہ اندیشہ اس بات کا بھی ہے کہ یہ چیزیں دشمن کے بجائے خود اپنی اپنی تباہی کا ذریعہ بن جائیں۔ (یخربون بیوتھم بایدیھم وایدی المومنین) یہ ان کی مرعوبیت کی تصویر ہے کہ اپنے جو مکانات انہوں نے نہ جانے کتنے دلولوں اور ارمانوں سے بنائے تھے خود اپنے ہاتھوں سے اجاڑ رہے تھے۔ (یخرنون) یہاں تصویر جال کے لیے ہے۔ اوپر ہم اشارہ کرچکے ہیں کہ ان کو یہ اجازت دے دی گئی تھی کہ اپنے اونٹوں پر جتنا سامان لے جاسکتے ہیں اتنا لے جائیں۔ اس اجازت سے فائدہ اٹھا کر انہوں نے مکانوں کی شتہیریں، کڑیاں، دروازے اور کھڑکیاں بھی اکھاڑ کر اپنے اونٹوں پر لاد لینے کی کوشش کی۔ حرص مال کے علاوہ مسلمان دشمنی کا جذبہ بھی کار فرما تھا اس وجہ سے انہوں نے یہ کوشش بھی کی ہوگی کہ جو چیز بچ بھی رہے اس کو بھی اس طرح ناکارہ بنا دیں کہ مسلمان اس سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکیں۔ (وایدی المومنین) ان کی اس تخریب میں مسلمانوں نے بھی ہاتھ بٹایا ہوگا کہ یہ مفسدین جس قدر جلد ممکن ہو ان کے قریب سے دفع ہوں۔ علاوہ ازیں آگے کی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے بعض باغ مسلمانوں نے جنگی ضروریات کے لیے بھی کاٹے۔ (فاعتبروایاولی الابصار) یہ اس واقعہ سے ان تمام لوگوں کو عبرت حاصل کرنے کی دعوت دی گئی ہے جن کے اندر عبرت پذیری کی صلاحیت ہے کہ دیکھ لو قرآن کی ہر بات کس طرح سچی ثابت ہوئی۔ اللہ و رسول کی مخالفت کرنے والوں کو کس طرح ذلت سے دو چار ہونا پڑا۔ حزب اللہ کے مقابل میں حزب الشیطان کو کس طرح شکست ہوئی۔ اگر اس کے بعد بھی کچھ لوگ اللہ و رسول کے دشمنوں سے دوستی رکھنے کے خواہش مند ہیں تو کر کے دیکھ لیں کہ اس کا انجام کیا ہوتا ہے۔
Top