Tafseer-e-Madani - Al-Muminoon : 25
اِنْ هُوَ اِلَّا رَجُلٌۢ بِهٖ جِنَّةٌ فَتَرَبَّصُوْا بِهٖ حَتّٰى حِیْنٍ
اِنْ هُوَ : نہیں وہ۔ یہ اِلَّا : مگر رَجُلٌ : ایک آدمی بِهٖ : جس کو جِنَّةٌ : جنون فَتَرَبَّصُوْا : سو تم انتظار کرو بِهٖ : اس کا حَتّٰى حِيْنٍ : ایک مدت تک
کچھ نہیں ، یہ پاگل ہوگیا ہے پس کچھ دنوں تک انتظار کر کے دیکھ لو اس کا انجام کیا ہوتا ہے
سیدنا نوح (علیہ السلام) کی قوم کے سرداروں نے سیدنا نوح (علیہ السلام) پر جنون کا الزام لگایا : 25۔ سیدنا نوح (علیہ السلام) کی قوم کے لیڈروں اور مذہبی راہنماؤں نے اپنے عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی تھی کہ یہ شخص جو یہ دعوی کرتا ہے کہ اس کے پاس رب کریم کی طرف سے کوئی فرشتہ وحی لے کر آتا ہے تو تم اس کے اس رعب میں مت آؤ یہ محض ایک قسم کا خلل دماغ ہے جس کے باعث یہ اس طرح کی باتیں کرتا ہے ، شاید ہی کوئی نبی ہو جس پر قوم نے یہ الزام نہ دیا ہو کہ اس کو کسی کی مار لگ گئی ہے ؟ پاگل ہوگیا ہے ؟ غور کیجئے کہ قوموں نے انبیاء کرام (علیہ السلام) پر یہ الزام کیوں لگایا ؟ اس لئے کہ وہ کہتے تھے یہ عجیب و غریب باتیں جو آج تک نہ ہم نے سنیں اور نہ ہمارے آباء و اجداد نے سنیں ہم ہی میں سے اٹھ کر جو اس نے کہنا شروع کردی ہیں تو یقینا یہ کوئی جناتی اثر کا نتیجہ ہے ورنہ جس کے ہوش و حواس درست ہوں وہ کبھی اس طرح کی بےبنیاد باتیں کرتا ہے ؟ آخر سارے لوگ غلط ہوگئے اور یہ ایک ہی صحیح ہے ؟ پھر تعجب کی بات تو یہ ہوئی کہ ہے بھی چٹا ان پڑھ اگر یہ کچھ پڑھا لکھا ہوتا تو یہ سارے پڑھے لکھے بھی وہی کہتے جو یہ کہتا ۔ یہی ان کی سب سے بڑی اور وزنی دلیل تھی جو انہوں نے نوح (علیہ السلام) کے خلاف استعمال کی اور یہی وہ دلیل ہے جو سارے انبیاء کرام (علیہ السلام) کے خلاف استعمال کی گئی اور یہی وہ دلیل ہے جو آج بھی ہمارے نام کی مولاناؤں اور علامہ حضرات کو استعمال کرنا آتی ہے اور یہی وہ الزام ہے جو دلائل کے مقابلہ میں آج بھی لگایا جاتا ہے ۔ آخر الکلام انہوں نے قوم کے عوام سے جو کہا وہ یہ تھا کہ اس کی باتوں میں مت آؤ کچھ دیر انتظار کرو حقیقت حال خود بخود تم پر واضح ہوجائے گی ، عوام کے لئے یہ ضابطہ قوم کے مذہبی راہنماؤں نے ہمیشہ قائم رکھا کہ جب تم اس کی بات پر کان ہی نہیں دھرو گے تو یہ اپنی موت آپ مر جائے گا یہ سرپھرا ہے اس کی باتوں میں نہ آؤ ۔
Top