Tadabbur-e-Quran - Al-Muminoon : 25
اِنْ هُوَ اِلَّا رَجُلٌۢ بِهٖ جِنَّةٌ فَتَرَبَّصُوْا بِهٖ حَتّٰى حِیْنٍ
اِنْ هُوَ : نہیں وہ۔ یہ اِلَّا : مگر رَجُلٌ : ایک آدمی بِهٖ : جس کو جِنَّةٌ : جنون فَتَرَبَّصُوْا : سو تم انتظار کرو بِهٖ : اس کا حَتّٰى حِيْنٍ : ایک مدت تک
یہ تو بس ایک ایسا شخص ہے جس کو ایک قسم کا جنون ہے۔ تو کچھ دن اس کے باب میں انتظار کرو !
رسول پر خلل داغ کا الزام یعنی ان لیڈروں نے اپنے عوام کو یہ بھی باور کرانے کی کوشش کی یہ شخص جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس کے پاس خدا کی طرف سے کوئی فرشتہ وحی لے کر آتا ہے تو اس سے اس کے رعب میں نہ آئو۔ یہ محض ایک قسم کا خلل دماغ ہے جس کے سبب سے اس کو ایک قسم کا وسوسہ لاحق ہوتا ہے جس کو یہ آسمانی وحی سمجھ بیٹھتا ہے۔ فتربصوا بہ حتی حین یعنی اس شخص کی ان باتوں کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ یہ مستقبل کے جس عذاب سے تم کو ڈرا رہا ہے اس سے کسی اندیشہ میں مبتلا نہ ہو۔ یہ سب اس کے وساوس ہیں۔ بہت جلد یہ ہوا میں اڑ جائیں گے۔ بالکل اسی قسم کی بات قریش کے لیڈروں نے آنحضرت ﷺ کے متعلق کہی جس کا حوالہ سورة طور میں دیا گیا ہے۔ ام یقولون شاعر نتربص بہ ریب المنون 30 (کیا وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک شاعر ہے جس کے لئے ہم گردش روزگار کے منتظر ہیں) قریش کا مطلب یہ تھا کہ کوئی ان کے ساحرانہ کلام سے محسور ہو کر اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو کہ ان کی باتوں کی کوئی بنیاد ہے اور اب مستقبل کا فیصلہ ان کے ہاتھ میں ہے یہ محض شاعرانہ خیال آرائی اور چند روز کی گرما گرمی ہے۔ بہت جلد یہ ختم ہوجائے گی۔ جس طرح ہمارے بہت سے شاعر اپنی اپنی بولیاں بول کر اڑ گئے اسی طرح ایک دن یہ بھی اڑ جائیں گے۔ یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ وقت کے لیڈر جب کسی شخص کے بارے میں یہ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ عوام اسے مستقبل کے ہادی یا نجات دہندہ کی حیثیت سے قبول کر رہے ہیں تو اس سے وہ بہت اندیشہ ناک ہوتے ہیں۔ اس کے متعلق وہ اپنے پیروئوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس کا یہ سارا طلسم چند روزہ ہے۔
Top