Tadabbur-e-Quran - Al-An'aam : 23
ثُمَّ لَمْ تَكُنْ فِتْنَتُهُمْ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوْا وَ اللّٰهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِیْنَ
ثُمَّ : پھر لَمْ تَكُنْ : نہ ہوگی۔ نہ رہی فِتْنَتُهُمْ : ان کی شرارت اِلَّآ : سوائے اَنْ : کہ قَالُوْا : وہ کہیں وَاللّٰهِ : قسم اللہ کی رَبِّنَا : ہمارا رب مَا كُنَّا : نہ تھے ہم مُشْرِكِيْنَ : شرک کرنے والے
پھر ان کے فریب کا پردہ چاک ہوجائے گا مگر یہ کہ وہ کہیں گے کہ اللہ اپنے رب کی قسم ! ہم مشرک نہیں تھے۔
ثُمَّ لَمْ تَكُنْ فِتْنَتُهُمْ : لفظ فتنہ کی تحقیق دوسرے مقام میں گزر چکی ہے۔ اگر اس کو اس معنی میں لیا جائے جس معنی میں مال و اولاد، دنیا اور زخارف دنیا کو قرآن میں فتنہ کہا گیا ہے تب تو یہ اپنے مفول کی طرف مضاف ہوگا اور مطلب یہ ہوگا کہ جس فتنہ شرک اور جن جھوٹی اور موہوم آرزوؤں میں آج یہ مبتلا ہیں اس کے پردے اٹھ جائیں گے اور ان کو نظر آجائے گا کہ جن سہاروں پر وہ جی رہے ہیں وہ محض فریب تھے۔ اس وقت ان کو اس کے سوا کوئی چاہ کار نظر نہیں آئے گا کہ جس طرح آج خدا پر جھوٹ باندھ رہے ہیں اسی طرح اپنے اوپر جھوٹ بولیں۔ اور اگر اس لفظ کو ظلم و تشدد سے دین سے پھیرنے کے معنی میں لیا جائے تو یہ اپنے فاعل کی طرف مضاف ہوگا اور مطلب یہ ہوگا کہ آج جس فتنہ میں یہ کمزور مسلمانوں کو بجرم انکارِ شرک، مبتلا کر رہے ہیں وہ ختم ہوجائے گا، اور وہ خود ایسی آفتوں میں مبتلا ہوجائیں گے کہ آج جس شرک کی حمایت میں وہ مسلمانوں کو مظالم کا ہدف بنائے ہوئے ہیں، خدا کی پکڑ میں آتے ہیں اس سے براءت کا اعلان کریں گے اور جھوٹ بولیں گے۔ ان دونوں میں سے جو مفہوم بھی لیا جائے دونوں ہی صورتوں میں انداز کلام طنزیہ ہوگا اور استثنا منقطع، میرا غالب رجحان پہلے مفہوم کی طرف ہے اور ترجمہ میں اسی کا میں نے لحاظ رکھا ہے۔
Top