Tadabbur-e-Quran - Al-An'aam : 24
اُنْظُرْ كَیْفَ كَذَبُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ ضَلَّ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ
اُنْظُرْ : تم دیکھو كَيْفَ : کیسے كَذَبُوْا : انہوں نے جھوٹ باندھا عَلٰٓي : پر اَنْفُسِهِمْ : اپنی جانوں وَ : اور ضَلَّ : کھوئی گئیں عَنْهُمْ : ان سے مَّا : جو كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ : وہ باتیں بناتے تھے
دیکھو، یہ کس طرح اپنے آپ پر جھوٹ بولے اور ان کا سارا افترا ہوا ہوگیا۔
اُنْظُرْ كَيْفَ كَذَبُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ ، میں انظر تصویر حال کے لیے ہے تاکہ مستقبل کا ایک ماجرا چشم تصور کے سامنے آجائے كَذَبُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ کے معنی ہیں انہوں نے اپنے اوپر جھوٹی گواہی دی، یعنی دنیا میں جس شرک کی حمایت میں لڑتے مرتے رہے آخر میں پہلے ہی قدم پر، قسم کھا کر اس کا انکار کریں گے۔ اس میں یہ لطیف تعریض بھی ہے کہ دنیا میں یہ خدا کے خلاف جھوٹی گواہی دیتے رہے، جیسا کہ آیت 19 میں مذکور ہے۔ اور آخرت میں اپنے اوپر جھوٹی گواہی دیں گے۔ ضَلَّ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ کا ٹھیک ٹھیک مطلب یہ ہوگا کہ دنیا میں خدا پر جھوٹ باندھ کر جن کو شرکا و شفعا کا درہم دیا گیا تھا اور جن سے تمام امیدیں باندھی گئی تھیں وہ سب ہوا ہوگئے۔ ان میں سے کوئی کام نہ آیا۔ ایک سوال کا جواب : اجزا کی تشریح سے آیات کا مدعا خود بخود واضح ہوگیا ہے، مزید تفصیل کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ البتہ ایک سوال ممکن ہے بعض لوگوں کے ذہن میں پیدا ہو۔ وہ یہ کہ قرآن کے بعض مقامات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے روز مشرکین اپنے شرک کا اقرار کریں گے بلکہ اپنے شرکا کو پکاریں گے بھی، اور آیت زیر بحث میں یہ تصریح ہے کہ وہ قسم کھا کے شرک سے اپنی براءت کا اعلان کریں گے۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ احوال روز قیامت کے مختلف مراحل کے بیان ہوئے ہیں۔ اس روز مشرکین کو جس حیرانی و پریشانی سے سابقہ پیش آئے گا وہ ایسی ہوگی کہ اس میں ان کو نجات کی کوئی راہ سجھائی نہیں دے گی اس وجہ سے جس مرحلے میں جو بات بنتی نظر آئے گی وہ بنانے کی کوشش کریں گے لیکن۔ ع۔ کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے۔
Top