Tadabbur-e-Quran - Al-Qalam : 10
وَ لَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَّهِیْنٍۙ
وَلَا : اور نہ تُطِعْ : تم اطاعت کرو كُلَّ حَلَّافٍ : بہت قسمیں کھانے والے کی مَّهِيْنٍ : ذلیل
اور تم بات نہ سنو ہر جھوٹی قسمیں کھانے والے ،
قریش کی پوری قیادت کی اخلاقی تصویر: یہ اسی ’فَلَا تُطِعِ الْمُکَذِّبِیْنَ‘ پر عطف کر کے تاکید کے ساتھ پھر تنبیہ فرمائی کہ تم ہر لپاٹیے ذلیل کی باتوں پر کان نہ دھرو۔ یہ اشارہ کسی خاص شخص کی طرف نہیں ہے، جیسا کہ عام طور پر لوگوں نے سمجھا ہے، بلکہ قریش کی پوری قیادت کی اخلاقی پستی کی تصویر آگے کی چند آیتوں میں کھینچ دی گئی ہے اور مقصود اس سے یہ دکھانا ہے کہ ایک طرف پیغمبر کا وہ بے مثال ’خلق عظیم‘ ہے جس کا آیت ۴ میں حوالہ ہے اور دوسری طرف قریش کے لیڈروں۔۔۔ ابولہب، ولید بن مغیرہ، ابوجہل، اخنس بن شریق۔۔۔ وغیرہ کا یہ کردار ہے جو بیان ہو رہا ہے۔ ان دونوں کو سامنے رکھ کر ہر منصف فیصلہ کر سکتا ہے کہ کون کس انجام سے دوچار ہونے والا ہے! یہ بات کہ یہ کسی خاص شخص کا نہیں بلکہ قریش کی پوری قیادت کا کردار بیان ہو رہا ہے مختلف پہلوؤں سے واضح ہے۔ اول یہ کہ اس کا عطف ’فَلَا تُطِعِ الْمُکَذِّبِیْنَ‘ پر ہے اور مکذبین سے مراد ظاہر ہے کہ کوئی معین شخص نہیں بلکہ موقع و محل دلیل ہے کہ قریش کی پوری قیادت ہے۔ دوسرا یہ کہ لفظ ’کُلّ‘ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں زیربحث کسی معین شخص کا کردار نہیں بلکہ جماعت کا کردار ہے۔ تیسرا یہ کہ آگے ’اِنَّا بَلَوْنٰہُمْ‘ کے الفاظ آئے ہیں جس میں جمع کی ضمیر ’ہُمْ‘ اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا مرجع کوئی فرد نہیں بلکہ جماعت ہے۔ چوتھا یہ کہ یہاں جو کردار بیان ہوا ہے وہ قریش کی پوری قیادت پر تو ٹھیک ٹھیک منطبق ہو جاتا ہے لیکن ہر بات کسی ایک معین شخص پر اگر منطبق کرنے کی کوشش کی جائے تو تکلف کرنا پڑے گا۔ اس اصولی بحث کو ذہن نشین کر لینے کے بعد اب الفاظ پر غور فرمائیے۔ ’حَلَّافٌ‘ کے معنی بہت زیادہ قسم کھانے والے کے ہیں۔ لفظ ’حلف‘ جیسا کہ اس کے محل میں وضاحت ہو چکی ہے، اول تو اچھے معنی میں آتا نہیں پھر اس کے ساتھ ’مَّھِیْنٌ‘ کی صفت بھی لگی ہوئی ہے جس کے معنی ذلیل کے ہیں۔ ظاہر ہے کہ زیادہ قسم وہی شخص کھائے گا جس کو اپنی عزت نفس کا خیال نہیں ہو گا۔ جو لوگ کردار کے اعتبار سے پست یا مطعون ہوتے ہیں وہ ہمیشہ احساس کہتری کے سبب سے شک میں مبتلا رہتے ہیں کہ مخاطب ان کی بات اس وقت تک باور نہیں کرے گا جب تک وہ قسم کھا کے اطمینان نہیں دلائیں گے اس وجہ سے وہ بات بات پر قسم کھاتے ہیں۔ چنانچہ منافقین کے متعلق قرآن میں جگہ جگہ یہ بات بیان ہوئی ہے کہ وہ اپنے کردار پر پردہ ڈالے رکھنے کے لیے قسموں کا سہارا لیتے ہیں۔ قریش کے لیڈروں کے پاس نہ تو آنحضرت ﷺ کے کردار پر حرف رکھنے کی گنجائش تھی اور نہ اسلام کے خلاف کوئی مبنی بر دلیل بات کہنے کی۔ عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے واحد سہارا ان کے پاس یہی تھا کہ قسمیں کھا کھا کے لوگوں کو اطمینان دلائیں کہ العیاذ باللہ آپ شاعر، کاہن، مجنون اور مفتری ہیں۔
Top