Tadabbur-e-Quran - Al-Anfaal : 75
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَ هَاجَرُوْا وَ جٰهَدُوْا مَعَكُمْ فَاُولٰٓئِكَ مِنْكُمْ١ؕ وَ اُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِیْ كِتٰبِ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ۠   ۧ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے مِنْۢ بَعْدُ : اس کے بعد وَهَاجَرُوْا : اور انہوں نے ہجرت کی وَجٰهَدُوْا : اور انہوں نے جہاد کیا مَعَكُمْ : تمہارے ساتھ فَاُولٰٓئِكَ : پس وہی لوگ مِنْكُمْ : تم میں سے وَاُولُوا الْاَرْحَامِ : اور قرابت دار بَعْضُهُمْ : ان کے بعض اَوْلٰى : قریب (زیادہ حقدار) بِبَعْضٍ : بعض (دوسرے) کے فِيْ : میں (رو سے) كِتٰبِ اللّٰهِ : اللہ کا حکم اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز عَلِيْمٌ : جاننے والا
اور جو ایمان لائیں اس کے بعد اور ہجرت کریں اور تمہارے ساتھ جہاد میں شریک ہوں، یہ بھی تمہی میں سے ہیں اور رحمی رشتے والے کے قانون میں ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں بیشک اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے
وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَهَاجَرُوْا وَجٰهَدُوْا مَعَكُمْ فَاُولٰۗىِٕكَ مِنْكُمْ ۭ وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ ۭاِنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ۔ دارالکفر کے مسلمانوں کو ترغیب، دار الاسلام کے مسلمانوں کے تنبیہ : یہ دارالکفر کے مسلمانوں کو ہجرت کی ترغیب و تشویق بھی ہے کہ تمہارے لیے بھی اسلامی معزارہ کا یہ دروازہ کھلا ہوا ہے اس کی طرف سبقت کرو اور اس میں اپنا مقام حاصل کرو اور دار الاسلام کے مسلمانوں کو تاکید بھی کہ بعد میں ایمان لانے والوں اور ہجرت کرنے والوں کے لیے بھی اپنے دلوں کے دروازے کھلے رکھو وہ بھی تمہارے ہی بھائی بند اور تمہارے ہی وجود ملی کے اجزا ہیں۔ نہ ان کے مقابل میں تمہارے اندر کوئی احساس برتری پیدا ہو، نہ دلوں میں کوئی تنگی۔ وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ۔ اولوالارحام کے شرعی حقوق مقدم ہیں : یہ اخوت و نصرت کے اس عام ضابطہ کے ساتھ جو اوپر مذکور ہوا، حقوق اور وراثت کے اس خاص قانون کی یاد دہانی کردی گئی ہے جو قرآن میں بیان ہوا ہے، مطلب یہ ہے کہ رحمی رشتوں کی بنا پر جو حقوق اللہ تعالیٰ نے قائم فرمائے ہیں وہ بدستور قائم رہیں گے۔ یہ اخوت اس میں کوئی تبدیلی نہیں کرے گی۔ رحمی رشتوں کے حقوق کے ساتھ فی کتاب اللہ کی قید یہ بات واضح کرتی ہے کہ یہاں حقوق سے مراد رحم اور قرابت کے وہ حقوق ہیں جو اللہ کے قانون میں بیان ہوئے ہیں، وہ رسوم اس سے خارج ہیں جو جاہلیت میں رائج رہے ہیں۔ قرآن کے دوسرے مقامات میں بھی جہاں مسلمانوں کو اپنے دینی واسلامی بھائیوں اور اولیاء کے ساتھ حسن سلوک اور نصرت و اعانت کی تاکید کی گئی ہے وہاں یہ تنبیہ کردی گئی ہے کہ اولوالارحام کے شرعی حقوق مقدم رہیں گے۔ سورة احزاب میں واولوالارحام بعضہم اولی ببعض فی کتاب اللہ من المومنین والمہاجرین الا انتفعلوا الی اولیاء کم معروفا، کان ذلک فی الکتاب مسطورا۔ (اور مومنین و مہاجرین میں رحمی رشتے والے ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں، اللہ کے قانون میں، مگر یہ کہ تم اپنے اولیاء کے ساتھ کوئی حسنِ سلوک کرو، یہ چیز کتاب میں لکھ ہوئی ہے) (احزاب : 6)۔ اِنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کی ہر بات اس کے لیے خطا علم پر مبنی ہے اور ہر چیز کا اس نے اپنے ایک محل و مقام مخصوص کیا ہے۔ دینی اخوت و ولایت کا اپنا دائرہ ہے اور رحمی قربت و قرابت کا اپنا مقام ہے۔ اپنے اپنے محل میں دونوں کا احترام کرو اور خدا نے ان کے جو حقوق ٹھہرائے ہیں ان کو ادا کرو۔ اسلامی سیاست کے چند اصول : اس مجموعہ آیات (آیات 72 تا 75) پر تدبر کی نظر ڈالیے تو ان سے اسلامی سیاست کے چند اصول سامنے آئیں گے جو بین الملی بھی ہیں اور بین الاقوامی بھی۔ ہم اختصار کے ساتھ ان کی طرف اشارہ کریں گے۔ 1۔ ایک یہ کہ انصار و مہاجرین ایک دوسرے کے اولیاء ہیں ان کے درمیان ایمان اور ہجرت کا رابطہ اور اسی کی اساس پر اخوت اور حمایت و نصرت کے حقوق و فرائض ہیں۔ پچھلی خاندانی و قبائلی عصبیتیں ختم ہوئیں اور باہمی تعاضد و تناصر اور حمیت و حمایت کی اساس اسلامی اخوت پر استوار ہوئی۔ 2۔ جو لوگ ایمان لائے لیکن انہوں نے دالکفر سے دار الاسلام کی کی طرف ہجرت نہیں کی وہ اس نئے اسلامی معاشرہ کے حقوق حمایت و نصرت میں شریک نہیں ہیں تاآنکہ وہ ہجرت کریں۔ 3۔ یہ دار الکفر میں پڑے ہوئے مسلمان اگر اسلام لانے کے جرم میں کہیں ستائے جا رہے ہوں تو ان کو ظلم سے بچانے کے لیے ان کی مدد کی جائے بشرطیکہ اس کے لیے کسی معاہد قوم سے جنگ نہ کرنی پڑے۔ 4۔ ہجرت ہر مسلمان پر واجب قرار دی گئی تاکہ مسلمان کفر کی طاقتوں سے مقابلہ کے لیے ایک مرکز میں مجتمع اور منظم ہوسکیں۔ 5۔ رحمی رشتوں کی بنا پر قرآن نے جو حقوق قائم کیے ہیں اسلامی اخوت کے حقوق ان پر اثر انداز نہ ہوں گے۔ وہ بہرحال مقدم رہیں گے۔ ان سطروں پر اس سورة کی تفسیر تمام ہوتی ہے۔ واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔
Top