Tafheem-ul-Quran - Yunus : 17
فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِاٰیٰتِهٖ١ؕ اِنَّهٗ لَا یُفْلِحُ الْمُجْرِمُوْنَ
فَمَنْ : سو کون اَظْلَمُ : بڑا ظالم مِمَّنِ : اس سے جو افْتَرٰي : باندھے عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر كَذِبًا : جھوٹ اَوْ كَذَّبَ : یا جھٹلائے بِاٰيٰتِهٖ : اس کی آیتوں کو اِنَّهٗ : بیشک وہ لَا يُفْلِحُ : فلاح نہیں پاتے الْمُجْرِمُوْنَ : مجرم (جمع)
پھر اُس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا جو ایک جھوٹی بات گھڑ کر اللہ کی طرف منسُوب کرے یا اللہ کی واقعی آیات کو جھوٹا قرار دے۔22 یقیناً مجرم کبھی فلاح نہیں پا سکتے۔“23
سورة یُوْنُس 22 یعنی اگر یہ آیات خدا کی نہیں ہیں اور میں انہیں خود تصنیف کر کے آیات الہٰی کی حیثیت سے پیش کر رہا ہوں تو مجھ سے بڑا ظالم کوئی نہیں۔ اور اگر یہ واقعی اللہ کی آیات ہیں اور تم ان کو جھٹلا رہے ہو تو پھر تم سے بڑا بھی کوئی ظالم نہیں۔ سورة یُوْنُس 23 بعض نادان لوگ ”فلاح“ کو طویل عمر، یا دنیوی خوشحالی، یا دنیوی فروغ کے معنی میں لے لیتے ہیں، اور پھر اس آیت سے یہ نتیجہ نکالنا چاہتے ہیں کہ جو شخص نبوت کا دعویٰ کر کے جیتا رہے، یا دنیا میں پھلے پھولے، یا اس کی دعوت کو فروغ نصیب ہو، اسے نبی برحق مان لینا چاہیے کیونکہ اس نے فلاح پائی۔ اگر وہ نبی برحق نہ ہوتا تو جھوٹا دعویٰ کرتے ہی مار ڈالا جاتا، یا بھوکوں مار دیا جاتا اور دنیا میں اس کی بات چلنے ہی نہ پاتی۔ لیکن یہ احمقانہ استدلال صرف وہی شخص کرسکتا ہے جو نہ تو قرآنی اصطلاح ”فلاح“ کا مفہوم جانتا ہو، نہ اس قانون امہال سے واقف ہو جو قرآن کے بیان کے مطابق اللہ تعالیٰ نے مجرموں کے لیے مقرر فرمایا ہے، اور نہ یہی سمجھتا ہو کہ اس سلسلہ بیان میں یہ فقرہ کس معنی میں آیا ہے۔ اول تو یہ بات کہ ”مجرم فلاح نہیں پاسکتے“ اس سیاق میں اس حیثیت سے فرمائی ہی نہیں گئی ہے کہ یہ کسی کے دعوائے نبوت کو پرکھنے کا معیار ہے جس سے عام لوگ جانچ کر خود فیصلہ کرلیں کہ جو مدعی نبوت ”فلاح“ پا رہا ہو اس کے دعوے کو مانیں اور جو فلاح نہ پا رہا ہو اس کا انکار کردیں۔ بلکہ یہاں تو یہ بات اس معنی میں کہی گئی ہے کہ ”میں یقین کے ساتھ جانتا ہوں کہ مجرموں کو فلاح نصیب نہیں ہو سکتی، اس لیے میں خود تو یہ جرم نہیں کرسکتا کہ نبوت کا جھوٹا دعویٰ کروں، البتہ تمہارے متعلق مجھے یقین ہے کہ تم سچے نبی کو جھٹلانے کا جرم کر رہے ہو اس لیے تمہیں فلاح نصیب نہیں ہوگی“۔ پھر فلاح کا لفظ بھی قرآن میں دنیوی فلاح کے محدود معنی میں نہیں آیا ہے، بلکہ اس سے مراد وہ پائیدار کامیابی ہے جو کسی خسران پر منتج ہونے والی نہ ہو، قطع نظر اس سے کہ دنیوی زندگی کے اس ابتدائی مرحلہ میں اس کے اندر کامیابی کا کوئی پہلو ہو یا نہ ہو۔ ہوسکتا ہے کہ ایک داعی ضلالت دنیا میں مزے سے جیے، خوب پھلے پھولے اور اس کی گمراہی کو بڑا فروغ نصیب ہو، مگر یہ قرآن کی اصطلاح میں فلاح نہیں، عین خسران ہے۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک داعی حق دنیا میں سخت مصیبتوں سے دو چار ہو، شدت آلام سے نڈھال ہو کر یا ظالموں کی دست درازیوں کا شکار ہو کر دنیا سے جلدی رخصت ہوجائے، اور کوئی اسے مان کر نہ دے، مگر یہ قرآن کی زبان میں خسران نہیں، عین فلاح ہے۔ علاوہ بریں قرآن میں جگہ جگہ یہ بات پوری تشریح کے ساتھ بیان کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ مجرموں کو پکڑنے میں جلدی نہیں کیا کرتا بلکہ انہیں سنبھلنے کے لیے کافی مہلت دیتا ہے، اور اگر وہ اس مہلت سے ناجائز فائدہ اٹھا کر اور زیادہ بگڑتے ہیں تو اللہ کی طرف سے ان کو ڈھیل دی جاتی ہے اور بسا اوقات ان کو نعمتوں سے نوازا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے نفس کی چھپی ہوئی تمام شرارتوں کو پوری طرح ظہور میں لے آئیں اور اپنے عمل کی بنا پر اس سزا کے مستحق ہوجائیں جس کے وہ اپنی بری صفات کی وجہ سے فی الحقیقت مستحق ہیں۔ پس اگر کسی جھوٹے مدعی کی رسی دراز ہو رہی ہو اور اس پر دنیوی ”فلاح“ کی برسات برس رہی ہو تو سخت غلطی ہوگی اگر اس کی اس حالت کو اس کے برسر ہدایت ہونے کی دلیل سمجھا جائے۔ خدا کا قانون امہال و استدراج جس طرح تمام مجرموں کے لیے عام ہے اسی طرح جھوٹے مدعیان نبوت کے لیے بھی ہے اور ان کے اس مستثنیٰ ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ پھر شیطان کو قیامت تک کے لیے جو مہلت اللہ تعالیٰ نے دی ہے اس میں بھی یہ استثنا کہیں مذکور نہیں ہے کہ تیرے اور تو سارے فریب چلنے دیے جائیں گے لیکن اگر تو اپنی طرف سے کوئی نبی کھڑا کرے گا تو یہ فریب نہ چلنے دیا جائے گا۔ ممکن ہے کوئی شخص ہماری اس بات کے جواب میں وہ آیت پیش کرے جو سورة الحاقہ آیات 4447 میں ارشاد ہوئی ہے کہ وَلَوْ تَقَوَّ لَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَ قَاوِیْلِ۔ لَاَ خَذْنَا مِنْہُ بِا لْیَمِیْنِ۔ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِیْنَ۔”یعنی اگر محمد ﷺ نے خود گھڑ کر کوئی بات ہمارے نام سے کہی ہوتی تو ہم اس کا ہاتھ پکڑ لیتے اور اس کی رگ دل کاٹ ڈالتے“۔ لیکن اس آیت میں جو بات کہی گئی ہے وہ تو یہ ہے کہ جو شخص فی الواقع خدا کی طرف سے نبی مقرر کیا گیا ہو وہ اگر جھوٹی بات گھڑ کر وحی کی حیثیت سے پیش کرے تو فورا پکڑا جائے۔ اس سے یہ استدلال کرنا کہ جو مدعی نبوت پکڑ انہیں جا رہا ہے وہ ضرور سچا ہے۔ ایک منطقی مغالطہ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ خدا کے قانون امہال و استدراج میں جو استثناء اس آیت سے ثابت ہو رہا ہے وہ صرف سچے نبی کے لیے ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ جو شخص نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرے وہ بھی اس سے مستثنیٰ کیا گیا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ سرکاری ملازموں کے لیے حکومت نے جو قانون بنایا ہو اس کا اطلاق صرف انہی لوگوں پر ہوگا جو واقعی سرکاری ملازم ہوں۔ رہے وہ لوگ جو جعلی طور پر اپنے آپ کو ایک سرکاری عہدہ دار کی حیثیت سے پیش کریں، تو ان پر ضابطہ ملازمت کا نفاذ نہ ہوگا بلکہ ان کے ساتھ وہی معاملہ کیا جائے گا جو ضابطہ فوجداری کے تحت عام بدمعاشوں اور مجرموں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ علاوہ بریں سورة الحاقہ کی اس آیت میں جو کچھ فرمایا گیا ہے وہ بھی اس غرض کے لیے نہیں فرمایا گیا کہ لوگوں کو نبی کے پرکھنے کا یہ معیار بتایا جائے کہ اگر پردہ غیب سے کوئی ہاتھ نمودار ہو کر اس کی رگ دل اچانک کاٹ لے تو سمجھیں جھوٹا ہے ورنہ مان لیں کہ سچا ہے۔ نبی کے صادق یا کاذب ہونے کی جانچ اگر اس کی سیرت، اس کے کام، اور اس چیز سے جو وہ پیش کر رہا ہو، ممکن نہ ہوتی تو ایسے غیر معقول معیار تجویز کرنے کی ضرورت پیش آسکتی تھی۔
Top