Mutaliya-e-Quran - Yunus : 17
فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِاٰیٰتِهٖ١ؕ اِنَّهٗ لَا یُفْلِحُ الْمُجْرِمُوْنَ
فَمَنْ : سو کون اَظْلَمُ : بڑا ظالم مِمَّنِ : اس سے جو افْتَرٰي : باندھے عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر كَذِبًا : جھوٹ اَوْ كَذَّبَ : یا جھٹلائے بِاٰيٰتِهٖ : اس کی آیتوں کو اِنَّهٗ : بیشک وہ لَا يُفْلِحُ : فلاح نہیں پاتے الْمُجْرِمُوْنَ : مجرم (جمع)
پھر اُس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو گا جو ایک جھوٹی بات گھڑ کر اللہ کی طرف منسُوب کرے یا اللہ کی واقعی آیات کو جھُوٹا قرار دے یقیناً مجرم کبھی فلاح نہیں پا سکتے "
فَمَنْ [ پس کون ] اَظْلَمُ [ زیادہ ظالم ہے ] مِمَّنِ [ اس سے جس نے ] افْتَرٰي [گھڑا ] عَلَي اللّٰهِ [ اللہ پر ] كَذِبًا [ ایک جھوٹ ] اَوْ [ یا ] [ كَذَّبَ (جھٹلایا ) بِاٰيٰتِهٖ (اس کی آیتوں کو ) اِنَّهٗ (بیشک یہ حقیقت ہے) لَا (نہیں) يُفْلِحُ (فلاح پاتے ) الْمُجْرِمُوْنَ (سب جرم کرنے والے ) نوٹ۔ 2: آیت ۔ 17 جن ظالموں کا ذکر ہے ان میں مسلیمہ کذاب بھی شامل ہے ۔ اسے ہلاک کیا گیا تو اس کی جماعت پراگندہ ہوگئی ۔ حضرت ابوبکر ؓ کے پاس اس کے لوگ تو بہ کرتے ہوئے آئے اور اسلام قبول کیا ۔ حضرت ابوبکر ؓ نے ان سے کہا کہ مسلیمہ کا کوئی قرآن تو سناؤ ، انھوں نے معافی ۔ ابوبکر ؓ نے اصرار کیا کہ ضرور سنانا ہوگا تاکہ لوگ مواز نہ کرکے ہدایت والی وحی کی فضیلت کو پہچان سکیں ، انھوں نے جو کچھ سنایا اس کے چند نمونے درج ذیل ہیں، (1) یا ضفد ع بنت صفد عین نقی کم تنقعین لا الماء تکدرین ولا الشارب تمنعین ، یعنی اے مینڈک ، اے مینڈکوں کی بیٹی تو ٹرا جتنا تو ٹراتی ہے ، (اس سے ) نہ تو پانی گدلا ہوگا اور نہ پینے والا باز رہے گا ۔ (2) والعاجنات عجنا والخابزات خبزا والاقمات لقما اھالۃ وسمنا ان قریشا قوم یعتدون ، یعنی قسم ہے آٹا گوندھنے والیوں کی جیسا کہ گوندھتے ہیں اور روٹی پکانے والیوں کی جیسا کہ پکاتے ہیں اور لقمہ بنانے والیوں کی جیسا کہ لقمہ بناتے ہیں ، چور چور کرتے ہوئے اور گھی ملاتے ہوئے بیشک قریش ایک ایسی قوم ہے جو زیادتی کرتی ہے ۔ (3) الفیل ما الفیل وما ادرک مالفیل لہ ذنب قصیر وخر طوم طویل ، یعنی ہاتھی اور کیا ہاتھی اور تجھ کو کیا خبر کہ ہاتھی کیا ہے اس کی چھوٹی دم ہے اور لمبی سونڈ ہے۔ حضرت عمرو بن العاص ؓ اسلام لانے سے پہلے مسیلمہ کے دوست تھے ۔ وہ اس سے ملنے گئے تو اس نے پوچھا تمہارے آدمی یعنی نبی کریم ﷺ پر آج کل کیا وحی اتری ہے ۔ انھوں نے کہا میں نے ان کے اصحاب کو ایک بڑی ہی زبردست سورت پڑھتے سنا ہے ۔ اس نے پوچھا وہ کیا ، تو انہوں نے سورة العصر پڑھ کر سنائی ، اس پر اس نے کہا مجھ پر بھی ایک ایسی ہی وحی اتری ہے ۔ انھوں نے پوچھا وہ کیا تو اس نے کہا یا وبریا وبر انما انت اذنان وصدروسائرک حقر ونقر ، یعنی اے جانور ، اے جانور تو تو بس دوکان ہے اور سینہ ہے (یعنی تیرے دونوں کان اور سینہ نمایاں ہیں ) اور تیرا باقی جسم حقیر اور ذلیل ہے ۔ (ابن کثیر سے ماخوذ)
Top