Urwatul-Wusqaa - Yunus : 17
فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِاٰیٰتِهٖ١ؕ اِنَّهٗ لَا یُفْلِحُ الْمُجْرِمُوْنَ
فَمَنْ : سو کون اَظْلَمُ : بڑا ظالم مِمَّنِ : اس سے جو افْتَرٰي : باندھے عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر كَذِبًا : جھوٹ اَوْ كَذَّبَ : یا جھٹلائے بِاٰيٰتِهٖ : اس کی آیتوں کو اِنَّهٗ : بیشک وہ لَا يُفْلِحُ : فلاح نہیں پاتے الْمُجْرِمُوْنَ : مجرم (جمع)
پھر بتلاؤ اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوسکتا ہے جو اپنے جی سے جھوٹ بنا کر اللہ پر افتراء کرے اور اس آدمی سے جو اللہ کی سچی آیتیں جھٹلائے ؟ یقینا جرم کرنے والے کبھی کامیابی حاصل نہیں کرسکتے
اللہ پر افتراء باندھنے والا کبھی فلاح و کامیاب حاصل نہیں کر سکتا 28 ؎ تمام علماء اخلاقیات اور نفسیات متفق ہی کی عمر میں ابتدائی چالیس برس کا زمانہ اس کے اخلاق و خصائل کے ابھرنے اور پنپنے کا اصل زمانہ ہوتا ہے۔ جو سانچا اس عرصہ میں بن گیا پھر بقیہ زندگی میں بدل نہیں سکتا ۔ پس اگر ایک شخص چالیس برس کی عمر تک صادق و امین رہا ہے تو کیونکر ممکن ہے کہ اکتالیسیوں برس میں قدم رکھتے ہیں ، ایسا کذاب و مفتری بن جائے کہ انسانوں ہی پر نہیں بلکہ فاطر السموات والارض پر افترا کرنے لگے ؟ چناچہ اس کے بعد فرمایا کہ دو باتوں سے تم انکار نہیں کرسکتے جو شخص اللہ پر افتراء کرے کہ اس سے بڑھ کر کوئی شریر نہیں اور جو صادق کو جھٹلائے وہ بھی سب سے زیادہ شریر انسان ہے اور یہ کہ شریر و مفتری کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا اب صورتحال نے یہاں دونوں فریق پیدا کردیئے ہیں اگر میں مفتری علی اللہ ہوں تو مجھے ناکام و نامراد ہونا پڑے گا اگر تم سچائی کے مکذب ہوں تو تمہیں اس کا خمیازہ بھگتنا ہے فیصلہ اللہ کے ہاتھ میں ہے اور اس کا قانون ہے کہ وہ مجرموں کو فلاح نہیں دیتا۔ چناچہ اللہ کا فیصلہ صاد ہوگیا جو مکذب تھے ان کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہا اور جو صادق تھا اس کا حکم صدق آج تک قائم ہے اور قائم رہے گا ۔ اس سے پہلے سورة الانعام کی آیت 21 ، 24 اور سورة الاعراف کی آیت 37 میں بھی یہ استشہاد گزر چکا ہے اس لئے عروۃ الوثقیٰ جلد سوم میں الانعام 6 : 21 ، 24 اور الاعراف 7 37 کی تفسیر بھی ملاحظہ فرما لیں۔
Top