Tafheem-ul-Quran - Al-Hajj : 37
لَنْ یَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَ لَا دِمَآؤُهَا وَ لٰكِنْ یَّنَالُهُ التَّقْوٰى مِنْكُمْ١ؕ كَذٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰىكُمْ١ؕ وَ بَشِّرِ الْمُحْسِنِیْنَ
لَنْ يَّنَالَ : ہرگز نہیں پہنچتا اللّٰهَ : اللہ کو لُحُوْمُهَا : ان کا گوشت وَلَا : اور نہ دِمَآؤُهَا : ان کا خون وَلٰكِنْ : اور لیکن (بلکہ) يَّنَالُهُ : اس کو پہنچتا ہے التَّقْوٰي : تقویٰ مِنْكُمْ : تم سے كَذٰلِكَ : اسی طرح سَخَّرَهَا : ہم نے انہیں مسخر کیا لَكُمْ : تمہارے لیے لِتُكَبِّرُوا : تاکہ تم بڑائی سے یاد کرو اللّٰهَ : اللہ عَلٰي : پر مَا هَدٰىكُمْ : جو اس نے ہدایت دی تمہیں وَبَشِّرِ : اور خوشخبری دیں الْمُحْسِنِيْنَ : نیکی کرنے والے
نہ اُن کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں نہ خون، مگر اُسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ 73 اُس نے ان کو تمہارے لیے اِس طرح مسخّر کیا ہے تاکہ اُس کی بخشی ہوئی ہدایت پر تم اُس کی تکبیر کرو۔ 74 اور اے نبیؐ ، بشارت دے دے نیکو کار لوگوں کو
سورة الْحَجّ 73 جاہلیت کے زمانے میں اہل عرب جس طرح بتوں کی قربانی کا گوشت بتوں پر لے جا کر چڑھاتے تھے، اسی طرح اللہ کے نام کی قربانی کا گوشت کعبہ کے سامنے لا کر رکھتے اور خون اس کی دیواروں پر لتھیڑتے تھے۔ ان کے نزدیک یہ قربانی گویا اس لیے کی جاتی تھی کہ اللہ کے حضور اس کا خون اور گوشت پیش کیا جائے۔ اس جہالت کا پردہ چاک کرتے ہوئے فرمایا کہ اصل چیز جو اللہ کے حضور پیش ہوتی ہے وہ جانور کا خون اور گوشت نہیں، بلکہ تمہارا تقویٰ ہے۔ اگر تم شکر نعمت کے جذبے کی بنا پر خالص نیت کے ساتھ صرف اللہ کے لیے قربانی کرو گے تو اس جذبے اور نیت اور خلوص کا نذرانہ اس کے حضور پہنچ جائے گا، ورنہ خون اور گوشت یہیں دھرا رہ جائے گا۔ یہ بات ہے جو حدیث میں نبی ﷺ سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا ان اللہ لا ینظر الیٰ سورکم ولا الیٰ الوانکم ولکن ینظر الیٰ قلوبکم و اعمالکم، " اللہ تمہاری صورتیں اور تمہارے رنگ نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دل اور اعمال دیکھتا ہے۔ " سورة الْحَجّ 74 یعنی دل سے اس کی بڑائی اور برتری مانو اور عمل سے اس کا اعلان و اظہار کرو۔ یہ پھر حکم قربانی کی غرض اور علت کی طرف اشارہ ہے۔ قربانی صرف اسی لیے واجب نہیں کی گئی ہے کہ یہ تسخیر حیوانات کی نعمت پر اللہ کا شکریہ ہے، بلکہ اس لیے بھی واجب کی گئی ہے کہ جس کے یہ جانور ہیں، اور جس نے انہیں ہمارے لیے مسخر کیا ہے، اس کے حقوق مالکانہ کا ہم دل سے بھی اور عملاً بھی اعتراف کریں، تاکہ ہمیں کبھی یہ بھول لاحق نہ ہوجائے کہ یہ سب کچھ ہمارا اپنا مال ہے۔ اسی مضمون کو وہ فقرہ ادا کرتا ہے جو قربانی کرتے وقت کہا جاتا ہے کہ اللھم منک ولک، " خدایا تیرا ہی مال ہے اور تیرے ہی لیے حاضر ہے "۔ اس مقام پر پہچان لینا چاہیے کہ اس پیراگراف میں قربانی کا جو حکم دیا گیا ہے وہ صرف حاجیوں کے لیے ہی نہیں ہے، اور صرف مکہ میں حج ہی کے موقع پر ادا کرنے کے لیے نہیں ہے، بلکہ تمام ذی استطاعت مسلمانوں کے لیے عام ہے، جہاں بھی وہ ہوں، تاکہ وہ تسخیر حیوانات کی نعمت پر شکریہ اور تکبیر کا فرض بھی ادا کریں اور ساتھ ساتھ اپنے اپنے مقامات پر حاجیوں کے شریک حال بھی ہوجائیں۔ حج کی سعادت میرے سر نہ آئی نہ سہی، کم از کم حج کے دنوں میں ساری دنیا کے مسلمان وہ کام تو کر رہے ہوں جو حاجی جوار بیت اللہ میں کریں۔ اس مضمون کی تصریح متعدد صحیح احادیث میں وارد ہوئی ہے، اور بکثرت معتبر روایات سے بھی ثابت ہوا ہے کہ نبی ﷺ خود مدینہ طیبہ کے پورے زمانۂ قیام میں ہر سال بقر عید کے موقع پر قربانی کرتے رہے اور مسلمانوں میں آپ ہی کی سنت سے یہ طریقہ جاری ہوا۔ مسند احمد اور ابن ماجہ میں ابوہریرہ کی روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا من وجد سعۃ فلم یُصَّحِّ فلا یقربن مصَلّانا۔ جو شخص استطاعت رکھتا ہو، پھر قربانی نہ کرے، وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے۔ اس روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں۔ محدثین میں صرف اس امر پر اختلاف ہے کہ یہ مرفوع روایت ہے یا موقوف۔ ترمذی میں ابن عمر ؓ کی روایت ہے اقام رسول اللہ ﷺ بالمدینۃ عشر سنین یُضَحِّی، نبی ﷺ مدینہ میں دس سال رہے اور ہر سال قربانی کرتے رہے۔ بخاری میں حضرت انس کی روایت ہے کہ نبی ﷺ نے بقر عید کے روز فرمایا من کان ذبح قبل الصلوٰۃ فلیعُد ومن ذبح بعد الصلوٰۃ فقد تم نسکہ و اصاب سنۃ المسلمین۔ جس نے عید کی نماز سے پہلے ذبح کرلیا اسے دوبارہ قربانی کرنی چاہیے، اور جس نے نماز کے بعد قربانی کی اس کی قربانی پوری ہوگئی اور اس نے مسلمانوں کا طریقہ پا لیا۔ اور یہ معلوم ہے کہ یوم النحر کو مکہ میں کوئی نماز ایسی نہیں ہوتی جس سے پہلے قربانی کرنا سنت مسلمین کے خلاف ہو اور بعد کرنا اس کے مطابق۔ لہٰذا لا محالہ یہ ارشاد مدینے ہی میں ہوا ہے نہ کہ حج کے موقع پر مکہ میں۔ مسلم میں جابر ؓ بن عبداللہ کی روایت ہے کہ نبی ﷺ نے مدینے میں بقرعید کی نماز پڑھائی اور بعض لوگوں نے یہ سمجھ کر کہ آپ قربانی کرچکے ہیں، اپنی اپنی قربانیاں کرلیں۔ اس پر آپ نے حکم دیا کہ مجھ سے پہلے جن لوگوں نے قربانی کرلی ہے وہ پھر اعادہ کریں۔ پس یہ بات شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ بقر عید کے روز جو قربانی عام مسلمان دنیا بھر میں کرتے ہیں، یہ نبی ﷺ ہی کی جاری کی ہوئی سنت ہے۔ البتہ اگر اختلاف ہے تو اس امر میں کہ آیا یہ واجب ہے یا صرف سنت۔ ابراہیم نخعی، امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام محمد، اور ایک روایت کے مطابق امام ابو یوسف بھی، اس کو واجب مانتے ہیں۔ مگر اما شافعی اور امام احمد بن حنبل کے نزدیک یہ سرف سنت مسلمین ہے، اور سفیان ثوری بھی اس بات کے قائل ہیں کہ اگر کوئی نہ کرے تو مضائقہ نہیں۔ تاہم علماء امت میں سے کوئی بھی اس بات کا قائل نہیں ہے کہ اگر تمام مسلمان متفق ہو کر اسے چھوڑ دیں تب بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ یہ نئی اُپچ صرف ہمارے زمانے کے بعض لوگوں کو سوجھی ہے جن کے لیے ان کا نفس ہی قرآن بھی ہے اور سنت بھی۔ سورة الْحَجّ 75 یہاں سے تقریر کا رخ ایک دوسرے مضمون کی طرف پھرتا ہے۔ سلسلہ کلام کو سمجھنے کے لیے یہ بات ذہن میں تازہ کر لیجیے کہ یہ تقریر اس وقت کی ہے جب ہجرت کے بعد پہلی مرتبہ حج کا موسم آیا تھا۔ اس وقت ایک طرف تو مہاجرین اور انصار مدینہ، دونوں کو یہ بات سخت شاق گزر رہی تھی کہ وہ حج کی نعمت سے محروم کردیے گئے ہیں اور ان پر زیارت حرم کا راستہ زبردستی بند کردیا گیا ہے۔ اور دوسری طرف مسلمانوں کے دلوں پر نہ صرف اس ظلم کے داغ تازہ تھے جو مکہ میں ان پر کیے گئے تھے، بلکہ اس بات پر بھی وہ سخت رنجیدہ تھے کہ گھر بار چھوڑ کر جب وہ مکہ سے نکل گئے تو اب مدینے میں بھی ان کو چین سے نہیں بیٹھنے دیا جا رہا ہے۔ اس موقع پر جو تقریر فرمائی گئی اس کے پہلے حصے میں کعبے کی تعمیر، اور حج کے ادارے اور قربانی کے طریقے پر مفصل گفتگو کر کے بتایا گیا کہ ان سب چیزوں کا اصل مقصد کیا تھا اور جاہلیت نے ان کو بگاڑ کر کیا سے کیا کردیا ہے۔ اس طرح مسلمانوں میں یہ جذبہ پیدا کردیا گیا کہ انتقام کی نیت سے نہیں بلکہ اصلاح کی نیت سے اس صورت حال کو بدلنے کے لیے اٹھیں۔ نیز اس کے ساتھ مدینے میں قربانی کا طریقہ جاری کر کے مسلمانوں کو یہ موقع بھی فراہم کردیا گیا کہ حج کے زمانے میں اپنے اپنے گھروں پر ہی قربانی کر کے اس سعادت میں حصہ لے سکیں جس سے دشمنوں نے ان کو محروم کرنے کی کوشش کی ہے، اور حج سے الگ ایک مستقل سنت کی حیثیت سے قربانی جاری کردی تاکہ جو حج کا موقع نہ پائے وہ بھی اللہ کی نعمت کے شکر اور اس کی تکبیر کا حق ادا کرسکے۔ اس کے بعد اب دوسرے حصے میں مسلمانوں کو اس ظلم کے خلاف تلوار اٹھانے کی اجازت دی جارہی ہے جو ان پر کیا گیا تھا اور کیا جا رہا تھا۔
Top