Tafseer-e-Majidi - Al-Hajj : 37
لَنْ یَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَ لَا دِمَآؤُهَا وَ لٰكِنْ یَّنَالُهُ التَّقْوٰى مِنْكُمْ١ؕ كَذٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰىكُمْ١ؕ وَ بَشِّرِ الْمُحْسِنِیْنَ
لَنْ يَّنَالَ : ہرگز نہیں پہنچتا اللّٰهَ : اللہ کو لُحُوْمُهَا : ان کا گوشت وَلَا : اور نہ دِمَآؤُهَا : ان کا خون وَلٰكِنْ : اور لیکن (بلکہ) يَّنَالُهُ : اس کو پہنچتا ہے التَّقْوٰي : تقویٰ مِنْكُمْ : تم سے كَذٰلِكَ : اسی طرح سَخَّرَهَا : ہم نے انہیں مسخر کیا لَكُمْ : تمہارے لیے لِتُكَبِّرُوا : تاکہ تم بڑائی سے یاد کرو اللّٰهَ : اللہ عَلٰي : پر مَا هَدٰىكُمْ : جو اس نے ہدایت دی تمہیں وَبَشِّرِ : اور خوشخبری دیں الْمُحْسِنِيْنَ : نیکی کرنے والے
اللہ تک نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون،64۔ البتہ اس کے پاس تمہارا تقوی پہنچتا ہے،65۔ اسی طرح اللہ نے انہیں تمہارے زیر حکم کردیا ہے تاکہ تم اللہ کی بڑائی بیان کرو کہ اس سے تمہیں ہدایت دی،66۔ اور آپ اخلاص والوں کو خوش خبری سنادیجیے،67۔
64۔ (جیسا کہ مشرک قوموں کا عقیدہ بھینٹ چڑھا کر اپنے دیوتاؤں خداؤں سے متعلق ہے) اہل کتاب تک قربانی یعنی جانوروں کے خون بہانے کو ایک ذریعہ کفارہ کا سمجھتے تھے۔ عہد عتیق میں ہے :۔” بدن کی حیات لہو میں ہے۔ سو میں نے مذبح پر وہ تم کو دیا ہے کہ اس سے تمہاری جانوں کے لیے کفارہ ہو، کیونکہ وہ جس سے کسی جان کا کفارہ ہوتا ہے سولہو ہے “۔ (احبار۔ 17: 11) اور عہد جدید میں ہے :۔” تقریبا ساری چیزیں شریعت کے مطابق خون سے پاک کی جاتی ہیں اور بغیر خون بہائے معافی نہیں ہوتی “۔ (عبرانیوں 9: 22) اور مشرک قوموں کا تو ذکر ہی کیا۔ اہل بابل کا عقیدہ تھا کہ دیوتاؤں کی دعوت آسمان پر ہوتی ہے۔ ان کے نام پر جو بھینٹ چڑھائی جاتی ہے وہ اس کی خوشبو محسوس کرتے ہیں، اسے کھاتے ہیں۔ وقس علی ہذا ملاحظہ ہو حاشیہ تفسیر انگریزی۔ فقہاء نے لکھا ہے کہ نفس ذبح کی نیت جو ایک فعل قلب ہے، باری تعالیٰ ہی کے لیے مخصوص رہنا چاہیے اور غیر اللہ کی رضا و تقرب کی خاطر جانور ذبح کرنا ایک صورت شرک کی ہے۔ البتہ گوشت کھانے کھلانے یا اسی قسم کے اور فوائد حاصل کرنے کے لیے ذبح بالکل جائز ہے کہ لحم ودم وغیرہ سے وہ ذات بالکل بےنیاز وبری ہے۔ 65۔ یعنی اجر تو تمہارے اخلاص ونیت تقرب پر ملتا ہے آیت نے قربانی کے سلسلہ میں ایک بڑی اہم اصل کا بیان کردیا “۔ 66۔ (اور راہ حق پر قائم رکھا، ورنہ تم بھی مسیحیوں کی طرف کفارہ وغیرہ کے عقائد باطلہ وشرکیہ میں مبتلا ہو کر رہ حق سے بھٹک گئے ہوتے۔ 67۔ (اے ہمارے پیغمبر ! ) احسان یہاں اخلاص کے معنی میں ہے۔ المحسنین اے المخلصین (بیضاوی)
Top