Tafheem-ul-Quran - Al-Muminoon : 101
قَالَ اخْسَئُوْا فِیْهَا وَ لَا تُكَلِّمُوْنِ
قَالَ : فرمائے گا اخْسَئُوْا : پھٹکارے ہوئے پڑے رہو فِيْهَا : اس میں وَلَا تُكَلِّمُوْنِ : اور کلام نہ کرو مجھ سے
اللہ تعالیٰ جواب دے گا”دُور ہو میرے سامنے سے، پڑے رہو اِسی میں اور مجھ سے بات نہ کرو۔ 98
سورة الْمُؤْمِنُوْن 98 یعنی اپنی رہائی کے لیے کوئی عرض معروض نہ کرو۔ اپنی معذرتیں پیش نہ کرو۔ یہ مطلب نہیں ہے ہمیشہ کے لیے بالکل چپ ہوجاؤ۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ یہ ان کا آخری کلام ہوگا جس کے بعد ان کی زبانیں ہمیشہ کے لیے بند ہوجائیں گی۔ مگر یہ بات بظاہر قرآن کے خلاف پڑتی ہے کیونکہ آگے خود قرآن ہی ان کی اور اللہ تعالیٰ کی گفتگو نقل کر رہا ہے۔ لہٰذا یا تو یہ روایات غلط ہیں، یا پھر ان کا مطلب یہ ہے کہ اس کے بعد وہ رہائی کے لیے کوئی عرض معروض نہ کرسکیں گے۔
Top