Tafheem-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 42
قَالَ نَعَمْ وَ اِنَّكُمْ اِذًا لَّمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ
قَالَ : اس نے کہا نَعَمْ : ہاں وَاِنَّكُمْ : اور بیشک تم اِذًا : اس وقت لَّمِنَ : البتہ۔ سے الْمُقَرَّبِيْنَ : مقربین
اس نے کہا”ہاں، اور تم تو اس وقت مقربّین میں شامل ہو جاوٴ گے۔“ 35
سورة الشُّعَرَآء 35 اور یہ تھا وہ بڑے سے بڑا اجر جو ان خادمان دین و ملت کو بادشاہ وقت کے ہاں سے مل سکتا تھا۔ یعنی روپیہ پیسہ ہی نہیں ملے گا، دربار میں کرسی بھی نصیب ہوجائے گی۔ اس طرح فرعون اور اس کے ساحروں نے پہلے ہی مرحلے پر نبی اور جادوگر کا عظیم اخلاقی فرق خود کھول کر رکھ دیا۔ ایک طرف وہ حوصلہ تھا کہ بنی اسرائیل جیسی پسی ہوئی قوم کا ایک فرد دس سال تک قتل کے الزام میں روپوش رہنے کے بعد فرعون کے دربار میں درّانہ آکھڑا ہوتا ہے اور دھڑلّے کے ساتھ کہتا ہے کہ میں اللہ رب العالمین کا بھیجا ہوا ہوں، بنی اسرائیل کو میرے حوالے کر۔ فرعون سے دو بدو بحث کرنے میں ادنیٰ سی جھجک بھی محسوس نہیں کرتا۔ اس کی دھمکیوں کو وہ پرکاہ کے برابر بھی وقعت نہیں دیتا۔ دوسری طرف یہ کم حوصلگی ہے کہ اسی فرعون کے ہاں باپ دادا کے دین کو بچانے کی خدمت پر بلائے جا رہے ہیں، پھر بھی ہاتھ جوڑ کر کہتے ہیں کہ سرکار، کچھ انعام تو مل جائے گا نا ؟ اور جواب میں یہ سن کر پھولے نہیں سماتے کہ پیسہ بھی ملے گا اور قرب شاہی سے بھی سرفراز کیے جائیں گے۔ یہ دو مقابل کے کردار آپ سے آپ ظاہر کر رہے تھے کہ نبی کس شان کا انسان ہوتا ہے اور اس کے مقابلے میں جادوگروں کی کیا ہستی ہوتی ہے۔ جب تک کوئی شخص بےحیائی کی ساری حدوں کو نہ پھاند جائے، وہ نبی کو جادوگر کہنے کی جسارت نہیں کرسکتا۔
Top