Urwatul-Wusqaa - Ash-Shu'araa : 42
قَالَ نَعَمْ وَ اِنَّكُمْ اِذًا لَّمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ
قَالَ : اس نے کہا نَعَمْ : ہاں وَاِنَّكُمْ : اور بیشک تم اِذًا : اس وقت لَّمِنَ : البتہ۔ سے الْمُقَرَّبِيْنَ : مقربین
فرعون نے کہا ہاں ‘ اور تم اس وقت میرے مقربین میں ہو گے ؟
فرعون کی طرف سے ساحروں کو جو جواب سنایا گیا وہ بڑا عجیب ہے : 42۔ یہ تھا وہ بڑے سے بڑا اجر جو ان خادمان دین وملت کو بادشاہ وقت کے ہاں سے مل سکتا تھا ، فرعون نے کہا کہ تم کو صرف روپیہ وپیسہ ہی نہیں ملے گا دربار میں کرسی بھی نصیب ہوجائے گی اس طرح فرعون اور اس کے پیشوایان دین نے پہلے مرحلے پر نبی اور غیر نبی کا عظیم اخلاق فرق خود ہی کھول کر رکھ دیا ، ایک طرف وہ حوصلہ تھا کہ بنی اسرائیل جیسی پسی ہوئی قوم کا ایک فرد ایک مدت تک روپوش رہنے کے بعد فرعون کے دربار میں خدائی پیغام پہنچانے کے لئے آکھڑا ہوتا ہے اور دھڑلے سے کہتا ہے کہ میں رب ذوالجلال والاکرام کا بھیجا ہوا ہوں ‘ بنی اسرائیل کو میرے حوالے کر دے اور پھر فرعون سے دو بدوبات کرنے میں ذرا بھی نہیں جھجھکتا اور دوسری طرف فرعون کے پاس باپ دادا کا دین بچانے کے لئے مذہبی پیشوا لائے جاتے ہیں اور پھر بھی ہاتھ جوڑ کر عرض پیش کر رہے ہیں کہ جناب عالی ہم کو کیا انعام ملے گا ؟ اس بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرلیا جائے کہ اللہ کا دین پیش کرنے والوں کی کیا شان ہے اور باپ دادا کے دین کے ٹھیکہ داروں کا کیا حال ؟ بدقسمتی سے آج قوم مسلم کے مذہبی پیشواؤں کا وہی حال ہے جو اس وقت تھا اس لئے ہم نے اوپر عرض کیا ہے کہ مذہبی پیشواؤں کو سیاسی لیڈروں کی ضرورت ہوتی ہے اور سیاسی لیڈروں کی ضرورت بھی مذہبی پیشوا ہیں ۔ دونوں کی ضرورت بھی واضح ہوگئی اور دونوں کی ذمہ داری بھی ۔
Top