Tafheem-ul-Quran - Al-Qasas : 14
وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗ وَ اسْتَوٰۤى اٰتَیْنٰهُ حُكْمًا وَّ عِلْمًا١ؕ وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ
وَلَمَّا : اور جب بَلَغَ اَشُدَّهٗ : وہ پہنچا اپنی جوانی وَاسْتَوٰٓى : اور پورا (توانا) ہوگیا اٰتَيْنٰهُ : ہم نے عطا کیا اسے حُكْمًا : حکمت وَّعِلْمًا : اور علم وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح نَجْزِي : ہم بدلہ دیا کرتے ہیں الْمُحْسِنِيْنَ : نیکی کرنے والے
جب موسیٰؑ اپنی پوری جوانی کو پہنچ گیا اور اُس کا نشوونما مکمل ہوگیا18 تو ہم نے اُسے حکم اور علم عطا کیا،19 ہم نے نیک لوگوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں
سورة القصص 18 یعنی جب ان کا جسمانی و ذہنی نشوونما مکمل ہوگیا، یودی روایات میں اس وقت حضرت موسیٰ کی مختلف عمریں بتائی گئی ہیں۔ کسی نے 18 سال لکھی ہے، کسی نے 20 سال، اور کسی نے 40 سال۔ بائیبل کے نئے عہد نامے میں 40 سال عمر بتائی گئی ہے۔ (اعمال 7۔ 23) لیکن قرآن کسی عمر کی تصریح نہیں کرتا۔ جس مقصد کے لیے قصہ بیان کیا جارہا ہے اس کے لیے بس اتنا ہی جان لینا کافی ہے کہ آگے جس واقعہ کا ذکر ہورہا ہے وہ اس زمانے کا ہے جب حضرت موسیٰ پورے شباب کو پہنچ چکے تھے۔ سورة القصص 19 حکم سے مراد حکمت، دانائی، فہم و فراست اور قوت فیصلہ۔ اور علم سے مراد دینی اور دنیوی علوم دونوں ہیں۔ کیونکہ اپنے والدین کے ساتھ ربط ضبط قائم رہنے کی وجہ سے ان کو اپنے باپ دادا (حضرت یوسف، یعقوب، اسحاق اور ابراہیم علیہم السلام) کی تعلیمات سے بھی واقفیت حاصل ہوگئی، اور بادشاہ وقت کے ہاں شاہزادے کی حیثیت سے پرورش پانے کے باعث ان کو وہ تمام دنیوی علوم بھی حاصل ہوئے جو اس زمانے کے اہل مصر میں متداول تھے، اس حکم اور علم کے عطیہ سے مراد نبوت کا عطیہ نہیں ہے۔ کیونکہ حضرت موسیٰ کو نبوت تو اس کے کئی سال بعد عطا فرمائی گئی، جیسا کہ آگے آرہا ہے اور اس سے پہلے سورة شعراء (آیت 21) میں بھی بیان ہوچکا ہے۔ اس زمانہ شاہزادگی کی تعلیم و تربیت کے متعلق بائیبل کی کتاب الاعمال میں بتایا گیا ہے کہ " موسیٰ نے مصریوں کے تمام علوم کی تعلیم پائی اور وہ کام اور کلام میں قوت والا تھا " (7۔ 22) تلمود کا بیان ہے کہ موسیٰ ؑ فرعون کے گھر میں ایک خوبصورت جوان بن کر اٹھے۔ شاہزادوں کا سا لباس پہنتے تھے، شاہزادوں کی طرح رہتے، اور لوگ ان کی نہایت تعظیم و تکریم کرتے تھے، وہ اکثر جشن کے علاقے میں جاتے جہاں اسرائیلیوں کی بستیاں تھیں، اور ان تمام سختیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے جو ان کی قوم کے ساتھ قبطی حکومت کے ملازمین کرتے تھے، انہی کی کوشش سے فرعون نے اسرائیلیوں کے لیے ہفتہ میں ایک دن کی چھٹی مقرر کی۔ انہوں نے فرعون سے کہا کہ دائما مسلسل کام کرنے کی وجہ سے یہ لوگ کمزور ہوجائیں گے اور حکومت ہی کے کام کا نقصان ہوگا۔ ان کی قوت بحال ہونے کے لیے ضروری ہے کہ انہیں ہفتے میں ایک دن آرام کا دیا جائے۔ اسی طرح اپنی دانائی سے انہوں نے اور بہت سے ایسے کام کیے جن کی وجہ سے تمام ملک مصر میں ان کی شہرت ہوگئی تھی۔ (اقتباسات تلمود۔ صفحہ 129)
Top