Tafheem-ul-Quran - Al-A'raaf : 5
فَمَا كَانَ دَعْوٰىهُمْ اِذْ جَآءَهُمْ بَاْسُنَاۤ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوْۤا اِنَّا كُنَّا ظٰلِمِیْنَ
فَمَا كَانَ : پس نہ تھا دَعْوٰىهُمْ : ان کا کہنا (ان کی پکار) اِذْ : جب جَآءَهُمْ : ان پر آیا بَاْسُنَآ : ہمارا عذاب اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ کہ (تو) قَالُوْٓا : انہوں نے کہا اِنَّا كُنَّا : بیشک ہم تھے ظٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور جب ہمارا عذاب اُن پر آگیا تو ان کی زبان پر اِس کے سوا کوئی صدا نہ تھی کہ واقعی ہم ظالم تھے۔ 5
سورة الْاَعْرَاف 5 یعنی تمہاری عبرت کے لیے ان قوموں کی مثالیں موجود ہیں جو خدا کی ہدایت سے منحرف ہو کر انسانوں اور شیطانوں کی رہنمائی پر چلیں اور آخر کار اس قدر بگڑیں کہ زمین پر ان کا وجود ایک ناقابل برداشت لعنت بن گیا اور خدا کے عذاب نے آکر ان کی نجاست سے دنیا کو پاک کردیا۔ آخری فقرے سے مقصد دو باتوں پر متنبہ کرنا ہے۔ ایک یہ کہ تلافی کا وقت گزر جانے کے بعد کسی کا ہوش میں نہ آنا اور اپنی غلطی کا اعتراف کرنا بےکار ہے۔ سخت نادان ہے وہ شخص اور وہ قوم جو خدا کی دی ہوئی مہلت کو غفلتوں اور سرشاریوں میں ضائع کردے اور داعیانِ حق کی صداؤں کو بہرے کانوں سے سنے جائے اور ہوش میں صرف اس وقت آئے جب اللہ کی گرفت کا مضبوط ہاتھ اس پر پڑچکا ہو۔ دوسرے یہ کہ افراد کی زندگیوں میں بھی اور اقوام کی زندگیوں میں بھی ایک دو نہیں بیشمار مثالیں تمہارے سامنے گزر چکی ہیں کہ جب کسی کی غلط کاریوں کا پیمانہ لبریز ہو چکتا ہے اور وہ اپنی مہلت کی حد کو پہنچ جاتا ہے تو پھر خدا کی گرفت اچانک اسے آپکڑتی ہے، اور ایک مرتبہ پکڑ میں آجانے کے بعد چھٹکارے کی کوئی سبیل اسے نہیں ملتی۔ پھر جب تاریخ کے دوران میں ایک دو دفعہ نہیں سینکڑوں اور ہزاروں مرتبہ یہی کچھ ہوچکا ہے تو آخر کیا ضرور ہے کہ انسان اسی غلطی کا بار بار اعادہ کیے چلا جائے اور ہوش میں آنے کے لیے اسی آخری ساعت کا انتظار کرتا رہے جب ہوش میں آنے کا کوئی فائدہ حسرت واندوہ کے سوا نہیں ہوتا۔
Top