Tafheem-ul-Quran - Al-A'raaf : 6
فَلَنَسْئَلَنَّ الَّذِیْنَ اُرْسِلَ اِلَیْهِمْ وَ لَنَسْئَلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَۙ
فَلَنَسْئَلَنَّ : سو ہم ضرور پوچیں گے الَّذِيْنَ : ان سے جو اُرْسِلَ : رسول بھیجے گئے اِلَيْهِمْ : ان کی طرف وَلَنَسْئَلَنَّ : اور ہم ضرور پوچھیں گے الْمُرْسَلِيْنَ : رسول (جمع)
پس یہ ضرور ہو کر رہنا ہے کہ ہم اُن لوگوں سے باز پرس کریں، 6جن کی طرف ہم نے پیغمبر بھیجے ہیں اور پیغمبروں سے بھی پوچھیں( کہ اُنہوں نے پیغام رسانی کا فرض کہاں تک انجام دیا اور انہیں اس کا کیا جواب ملا)7
سورة الْاَعْرَاف 6 باز پرس سے مراد روز قیامت کی باز پرس ہے۔ بدکار افراد اور قوموں پر دنیا میں جو عذاب آتا ہے وہ دراصل ان کے اعمال کی باز پرس نہیں ہے اور نہ وہ ان کے جرائم کی پوری سزا ہے۔ بلکہ اس کی حیثیت تو بالکل ایسی ہے جیسے کوئی مجرم جو چھوٹا پھر رہا تھا، اچانک گرفتار کرلیا جائے اور مزید ظلم و فساد کے مواقع اس سے چھین لیے جائیں۔ تاریخ انسانی اس قسم کی گرفتاریوں کی بیشمار نظیروں سے بھر پڑی ہے اور یہ نظیریں اس بات کی ایک صریح علامت ہیں کہ انسان کو دنیا میں شتر بےمہار کی طرح چھوڑ نہیں دیا گیا ہے کہ جو چاہے کرتا پھرے، بلکہ اوپر کوئی طاقت ہے جو ایک حد خاص تک اسے ڈھیل دیتی ہے، تنبیہات پر تنبیہات بھیجتی ہے کہ اپنی شرارتوں سے باز آجائے، اور جب وہ کسی طرح باز نہیں آتا تو اسے اچانک پکڑ لیتی ہے۔ پھر اگر کوئی اس تاریخی تجربہ پر غور کرے تو بآسانی یہ نتیجہ بھی نکال سکتا ہے کہ جو فرمان روا اس کائنات پر حکومت کر رہا ہے اس نے ضرور ایسا ایک وقت مقرر کیا ہوگا جب ان سارے مجرموں پر عدالت قائم ہوگی اور ان سے ان کے اعمال کی باز پرس کی جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اوپر کی آیت کو جس میں دنیوی عذاب کا ذکر کیا گیا ہے، بعد والی آیت کے ساتھ ”پس“ کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے، گویا اس دنیوی عذاب کا بار بار واقع ہونا آخرت کی باز پرس سے یقیناً واقع ہونے پر ایک دلیل ہے۔ سورة الْاَعْرَاف 7 اس سے معلوم ہوا کہ آخرت کو باز پرس سراسر رسالت ہی کی بنیاد پر ہوگی۔ ایک طرف پیغمبروں سے پوچھا جائے گا کہ تم نے نوع انسانی تک خدا کا پیغام پہنچانے کے لیے کیا کچھ کیا۔ دوسری طرف جن لوگوں تک رسولوں کا پیغام پہنچا ان سے سوال کیا جائے گا کہ اس پیغام کے ساتھ تم نے کیا برتاؤ کیا۔ جس شخص یا جن انسانی گروہوں تک انبیاء کا پیغام نہ پہنچا ہو، ان کے بارے میں تو قرآن ہمیں کچھ نہیں بتاتا کہ ان کے مقدمہ کا کیا فیصلہ کیا جائے گا۔ اس معاملہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنا فیصلہ محفوظ رکھا ہے۔ لیکن جن اشخاص و اقوام تک پیغمبروں کی تعلیم پہنچ چکی ہے ان کے متعلق قرآن صاف کہتا ہے کہ وہ اپنے کفر و انکار اور فسق و نافرمانی کے لیے کوئی حجّت نہ پیش کرسکیں گے اور ان کا انجام اس کے سوا کچھ نہ ہوگا کہ حسرت و ندامت کے ساتھ ہاتھ ملتے ہوئے جہنم کی راہ لیں۔
Top