Tafseer-al-Kitaab - Hud : 119
اِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّكَ١ؕ وَ لِذٰلِكَ خَلَقَهُمْ١ؕ وَ تَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لَاَمْلَئَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِ اَجْمَعِیْنَ
اِلَّا : مگر مَنْ : جو۔ جس رَّحِمَ : رحم کیا رَبُّكَ : تیرا رب وَلِذٰلِكَ : اور اسی لیے خَلَقَهُمْ : پیدا کیا انہیں وَتَمَّتْ : اور پوری ہوئی كَلِمَةُ : بات رَبِّكَ : تیرا رب لَاَمْلَئَنَّ : البتہ بھردوں گا جَهَنَّمَ : جہنم مِنَ : سے الْجِنَّةِ : جن (جمع) وَالنَّاسِ : اور انسان اَجْمَعِيْنَ : اکٹھے
مگر (ہاں) جس پر تمہارے رب نے رحم فرمایا (تو وہ حقیقت پالے گا) ۔ اسی لئے تو اس نے انھیں پیدا کیا ہے، اور (اسی اختلاف فکر و عمل کا نتیجہ ہے کہ) تمہارے رب کی (وہ) بات پوری ہوگئی (جو اس نے کہی تھی) کہ ہم دوزخ کو جنوں اور انسانوں سب سے بھردیں گے۔
[61] آیت 116 میں انسانی آبادیوں کی تباہی کا جو سبب بیان کیا گیا ہے اس پر یہ اعتراض کیا جاسکتا تھا کہ ان میں اہل خیر کا نہ ہونا یا کم پایا جانا بھی تو آخر اللہ کی مشیت سے تھا پھر اس کا الزام ان تمام آبادیوں پر کیوں رکھا جائے ؟ کیوں نہ اللہ نے ان کے اندر بہت سے اہل خیر پیدا کردیئے ؟ اس کا جواب اس آیت میں یہ دیا گیا ہے کہ اگر اللہ چاہتا تو تمام انسانوں کو حق پر جمع کردیتا اور دنیا میں بس ایک ہی قوم اہل حق کی رہتی۔ لیکن اللہ کی مشیت انسان کے بارے میں یہ ہے ہی نہیں ورنہ پھر رسولوں اور دعوت حق کی ضرورت ہی کیا تھی۔ انسان کے بارے میں اللہ کی جو مشیت ہے وہ یہ کہ اسے اپنی پسند کے مطابق نیکی اور بدی کی راہوں پر چلنے کی آزادی دی جائے اور ان میں سے جو راہ بھی وہ اپنے لئے پسند کرے اس پر چل سکے اللہ کا یہ دستور نہیں کہ کوئی انسان خود تو چلنا چاہے بدی کی راہ پر اور اللہ زبردستی اس کو خیر کے راستے پر موڑ دے۔ اسی لئے رسول اللہ ﷺ کو سمجھا دیا گیا کہ آپ اہل ضلال کے وجود پر غم و حیرت نہ کریں کیونکہ اہل حق کے مقابلے میں اہل ضلال بھی برابر پیدا ہوتے رہیں گے۔ [62] یہ اللہ تعالیٰ کے اس قول کا حوالہ ہے جو ابلیس کے جواب میں ارشاد ہوا تھا اور جس کی تفصیل دوسرے مقام پر ہے کہ ابلیس نے آدم کو سجدہ سے انکار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے کہا کہ ذریت آدم پر ایسے گھیرے ڈالوں گا کہ تو ان میں سے کسی کو اپنا شکرگزار نہیں پائے گا۔ اللہ نے اس دھمکی کے جواب میں فرمایا کہ ایسے تمام جنوں اور انسانوں سے جہنم کو بھر دوں گا۔
Top