Tafseer-al-Kitaab - Al-A'raaf : 102
حَقِیْقٌ عَلٰۤى اَنْ لَّاۤ اَقُوْلَ عَلَى اللّٰهِ اِلَّا الْحَقَّ١ؕ قَدْ جِئْتُكُمْ بِبَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَرْسِلْ مَعِیَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَؕ
حَقِيْقٌ : شایان عَلٰٓي : پر اَنْ : کہ لَّآ اَقُوْلَ : میں نہ کہوں عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ اِلَّا الْحَقَّ : مگر حق قَدْ جِئْتُكُمْ بِبَيِّنَةٍ : تحقیق تمہارے پاس لایا ہوں نشانیاں مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب فَاَرْسِلْ : پس بھیج دے مَعِيَ : میرے ساتھ بَنِيْٓ اِ سْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل
میرا فرض منصبی ہے کہ سچ کے سوا اللہ کی طرف کوئی بات منسوب نہ کروں۔ میں تم لوگوں کے پاس تمہارے رب کی کھلی نشانی لے کر آیا ہوں، لہذا (اے فرعون، ) تو بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دے۔
[43] بنی اسرائیل یوسف (علیہ السلام) کے زمانے میں کنعان سے جا کر مصر میں آباد ہوئے تھے۔ پھر رفتہ رفتہ مصریوں نے انہیں غلام بنا لیا تھا۔ موسیٰ دو چیزوں کی دعوت لے کر فرعون کے پاس بھیجے گئے تھے۔ ایک یہ کہ وہ اسلام قبول کرے اور دوسرے یہ کہ بنی اسرائیل کو غلامی سے رہا کردے تاکہ وہ مصر سے نکل کر اپنے وطن چلے جائیں۔ قرآن میں ان دو باتوں کا ذکر کہیں یکجا کیا گیا ہے اور کہیں موقع و محل کے لحاظ سے صرف ایک ہی کا ذکر ہے۔
Top