Tafheem-ul-Quran - Al-A'raaf : 105
حَقِیْقٌ عَلٰۤى اَنْ لَّاۤ اَقُوْلَ عَلَى اللّٰهِ اِلَّا الْحَقَّ١ؕ قَدْ جِئْتُكُمْ بِبَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَرْسِلْ مَعِیَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَؕ
حَقِيْقٌ : شایان عَلٰٓي : پر اَنْ : کہ لَّآ اَقُوْلَ : میں نہ کہوں عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ اِلَّا الْحَقَّ : مگر حق قَدْ جِئْتُكُمْ بِبَيِّنَةٍ : تحقیق تمہارے پاس لایا ہوں نشانیاں مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب فَاَرْسِلْ : پس بھیج دے مَعِيَ : میرے ساتھ بَنِيْٓ اِ سْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل
میرا منصب یہی ہے کہ اللہ کا نام لے کر کوئی بات حق کے سوا نہ کہوں، میں تم لوگوں کے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے صریح دلیلِ ماموریّت لے کر آیا ہوں، لہٰذا تُو بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دے۔“ 86
سورة الْاَعْرَاف 86 حضرت موسیٰ ؑ دو چیزوں کی دعوت لے کر فرعون کے پاس بھیجے گئے تھے۔ ایک یہ کہ وہ اللہ کی بندگی (اسلام) قبول کرے، دوسرے یہ کہ بنی اسرائیل کی قوم کو جو پہلے سے مسلمان تھی اپنے پنجہ ظلم سے رہا کر دے۔ قرآن میں ان دونوں دعوتوں کا کہیں یکجا ذکر کیا گیا ہے اور کہیں موقع و محل کے لحاظ سے صرف ایک ہی کے بیان پر اکتفا کیا گیا ہے۔
Top